بھارتی ریاست اتر پردیش کے سمبھل علاقے میں معصوم مسلمانوں کو خون میں نہلایا گیا ہے،جہاں17ویں صدی میں مغل دور کی طرز تعمیر شاہی جامع مسجد پر ہندوتوا دہشت گردوں نے اپنی ناپاک نظریں گارڈ دی ہیں اور ان ناپاک خاکوں میں رنگ بھرنے کیلئے عدالت بھی ہندتوا منصوبے کو پروان چڑھا رہی ہے۔عدالت نے شاہی جامع مسجد کا سروے کرانے کے احکامات19 نومبرکو جاری کیے ،تو24 نومبر کی صبح ساڑھے سات بجے ایڈوکیٹ کمشنر رمیش راگھو کی سربراہی میں سروے ٹیم آنا فانا سنبھل پہنچی اور اوپر سے لیکر نیچے تک مسجد کی ویڈیو گرافی کر ڈالی ۔
مقامی مسلمانوں نے جب اس سروے کے خلاف جمع ہوکر احتجاج شروع کیا تو یوگی آدتیہ ناتھ کے احکامات پر دہشت گرد پولیس نے مسلمانوں پر براہ راست فائرنگ کی،جس کے نتیجے میں پانچ مسلم نوجوان بلال انصار، نعیم، کیف،ندیم غازی اور ایان موقع پر ہی شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے،یوں پانچ معصوم مسلمانوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا مگر مودی اوراس کے ساتھی دہشت گرد جن میں یوگی آدتیہ ناتھ سرفہرست ہیں ،خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ دو خواتین سمیت 27 مسلمانوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ،جبکہ2700 کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔جن میں سماج وادی پارٹی کیساتھ وابستہ بھارتی ممبر پارلیمنٹ ضیاالرحمن برق بھی شامل ہیں،جو24 نومبر کے روز آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کیلئے بنگلور میں تھے۔ شہید نوجوانوں کی تدفین فوری طورپر کی جاچکی ہے اور یوگی حکومت نے سنبھل علاقے میں تمام پولیس تعینات کرکے نہ کسی کو باہر اور نہ ہی باہر سے کسی کو اندر کے آحکامات صادر کیے ہیں۔شہدا کے لواحقین پر اس قدر دبائو ڈالا جاچکا ہے کہ وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم میں پولیس اور انتظامیہ سے لڑنے کی سکت نہیں ہے ،بس اللہ ہی ہمارا آخری سہارا ہیں۔حالانکہ سنبھل علاقے کی 65 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔شاہی جامع مسجد کی تعمیر کو کم و بیش 04 صدیاں بیت چکی ہیں اور بقول ایک مسلمان کے ہمارے بڑے اسی مسجد میں نمازیں پڑھتے ہوئے اس دنیا سے جاچکے ہیں، ہم بھی اب قبر کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں،البتہ ہندوتوا جماعتوں کو صدیاں گزرنے کے بعد مندر کی جگہ شاہی جامع مسجد کی تعمیر کی یاد ستانے لگی ہے۔اس سے قبل ہندئووں نے اپنی درخواست میں دعوی کیا تھا کہ شاہی جامع مسجد دراصل بھگوان وشنو اوتار کو وقف ایک قدیم ہندو مندر ہے۔تاہم شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی اورمقامی مسلمانوں نے عدالت کی جانب سے عجلت میں مسجد کے سروے پر حیرت کا اظہار کیا۔ یاد رہے سول جج سینئر ڈیویژن آدتیہ سنگھ نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعوی کرنے والے ہندوتوا حامی وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گری کی قیادت میں آٹھ لوگوں کی طرف سے دائر درخواست کے بعد شاہی جامع مسجد کے سروے کی ہدایت کی ہے۔شاہی جامع مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایت پر تعمیر کیا گیا تھا، جسے ضلع سنبھل کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی ایک تاریخی یادگارکے طور پر دکھایا گیا ہے۔ تاہم ہندو انتہاپسندوں نے دعوی کیا ہے کہ مسجد وشنو کے آخری اوتار کالکی کو وقف ایک قدیم مندر ہے ۔گو کہ سروے کے دوران کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی۔ جس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ شاہی جامع مسجد دراصل ایک مسجد ہی ہے۔شاہی جامع مسجد کی جانب سے ایک وکیل نے کہا کہ انہیں اپنا اعتراض درج کرانے کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی علاقے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے ضروری امن اجلاس بلایاگیا۔جبکہ سماج وادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ضیا الرحمان برق نے ایڈوکیٹ کمشنر کے سروے کو جلد بازی میں شروع کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے شاہی مسجد کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ ہمارا جواب نہیں مانگا گیا۔ حالانکہ شاہی جامع مسجد کو عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کھلے عام مسلمانوں کی مساجد،درگاہوں،مدارس اور قبرستانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اعلانات کرچکے ہیں۔اتر پردیش میں قائم دو لاکھ سے زائد مدارس کو پابندیوں کی زد میں لاکر ان میں زیر تعلیم لاکھوں مسلم بچوں اور ہزاروں اساتذہ کے مستقبل کیساتھ کھلواڑ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی،جس پر حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر پابندی لگائی کہ ریاستی حکومت کو ایسا کوئی اقدام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی،جبکہ اس سے قبل مسلمانوں کے رہائشی مکانات کو آئے روز بلڈوزر سے ملیا میٹ کرنا معمول بن چکا تھا،اس کاروائی پر بھی بھارتی سپریم کورٹ نے پابندی لگائی ہے۔یہ بلڈوزر کاروائی ہی ہے ،جس سے یوگی آدتیہ ناتھ نے بلڈوزر بابا کے نام سے شہرت پائی ہے۔مسلمان مساجد میں جگہ کی تنگی یا مساجد کی عدم موجودگی کے باعث نماز جمعہ کھلے میدانوں میں بھی ادا کرتے تھے،تو یوگی نے نہ صرف ہندوتوا شر پسندوں سے ان پر حملے کروائے بلکہ اس کے سدباب کیلئے ریاستی میشنری کا بھرپور استعمال بھی کیا ہے۔دراصل رواں برس بھارتی پارلیمانی انتخابات میں ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کی شکست کا بدلہ اب مسلمانوں سے لیا جارہا ہے،کیونکہ ریاست سے بڑی تعداد میں مسلمان نہ صرف خود منتخب ہوئے بلکہ ان کی حمایت سے سماج وادی پارٹی اور کانگریس نے بی جے پی کو پچھاڑ دیا ہے۔جس کا بی جے پی کو بہت قلعق ہے۔مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ 2019 میں بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے ، جس میں ایودھیا میں متنازعہ اراضی کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی، نے ہندوتوا گروپوں کو بھارت بھر میں مساجد کو نشانہ بنانے کا حوصلہ بخشا ہے،جس سے06 دسمبر 1992 میں ایڈوانی،منوہر جوشی اور اوما بھارتی کی سربراہی میں پورے بھارت سے لائے گئے پرچارکوں کی مدد سے شہید کیا گیا تھا، اور پھر طرفہ تماشہ یہ کہ فسطائی مودی سمیت پوری بی جے پی نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اپنے حق میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا ،حالانکہ پوری دنیا میں رنجن گوگوئی نامی بھارتی سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس کی خوب لعنت ملامت کی اور وہ فیصلہ اس کی جگ ہنسائی کا باعث بن گیا،جو آج بھی اس کا پیچھا کررہا ہے۔اسی فیصلے میں اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا کہ کھدائی کے دوران بابری مسجد کے نیچے سے مندر کے کوئی اثار نہیں ملے،مگر جہاں افضل گورو کی پھانسی کو بھارتی عوام کے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے ناگزیر قرار دینے والی بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارت کیلئے ذلت و رسوائی ہے،وہیں بابری مسجد کا فیصلہ بھی بھارت کے دامن پر ایک ایسا دھبہ ہے،جس سے کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا۔بابری مسجد کی تعمیر کیلئے بھی ایودھیا میں ہی 05 ایکڑ زمین دینے کے احکامات فیصلے میں درج ہیں،لیکن بھارتی مسلمانوں نے آج کے دن تک اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی بابری مسجد کی تعمیر شروع کی،جس کا مقصد اپنا احتجاج اور ناراضگی کا بھر پور اظہار کرنا ہے۔کیونکہ دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں نے بابری مسجد کے فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔بابری مسجد کے بعد بنارس وارنسی کی گیان واپی مسجد پر بھی ہندوئوں نے یہ کہہ کر عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ وہ مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی اور اس میں وضو کی جگہ شیولنگ بھی موجود ہے۔حالانکہ ضلعی عدالت نے 1937 میں دین محمد بنام اسٹیٹ آف سیکریٹری معاملے میں ثبوتوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ گیان واپی کا پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے۔مگر مودی اور بی جے پی ہے کہ وہ پورے بھارت سے مساجد کا صفایا اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
گوبھارت میں مسلمانوں کی زندگی پہلے سے ہی تنگ کی جاچکی تھی لیکن 2014 میں مودی کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے بی جے پی نے بھارت کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف خونریز تشدد کو ہوا دی ہے۔سنگھ پریوار کے غنڈوں کو بھارت میں اپنے ہندوتوا ایجنڈے کے نفاذ کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔یہ بات بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بی جے پی بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے پر تلی ہے، جس کے بعد اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پررہنے پر مجبور کیا جائے گا۔اس کی بڑی وجہ BJP کی جانب سے پورے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے شعلوں کو ہوا دینا ہے کیونکہ پورے بھارت میں مودی حکومت کی سرپرستی میں ہندوتوا نظریئے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مودی کی طرف سے ہندوتوا نظریہ کی کھلی حمایت مذہبی دہشت گردی کی جدید ترین شکل ہے۔بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم وتشدد ہندوتوا نظریے کا عملی مظہر ہے اوربھارت میں بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی ہندو تواتنظیموں کی تاریخ تشدد اور تعصب سے بھری پڑی ہے۔ ہندوتوا غنڈے بھارت بھر میں مذہبی اقلیتوں پر ہندو ثقافت مسلط کرنے کیلئے تشدد کا استعمال کر رہے ہیں،جس کیلئے بھارتی حکومت اور اس کی عدلیہ اپنے ہندو توا قوم پرست ایجنڈے کیلئے ہمدرد گروہوں کو بچا رہی ہے۔ لہذابھارت میں ہندوتوا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا کو آگے آنا چاہیے۔ورنہ بھارت میں مسلمانوں کے وجود کا خاتمہ یقینی ہے،جس کا اظہار نسل کشی سے متعلق تنظیم جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر گیگوری سٹنٹن واشگاف الفاظ میں کرچکے ہیں،کہ اگر مودی اور بی جے پی کو نہ روکا گیا تو بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی دروازے پر دستک دے چکی ہے۔بھارت میں ہندتوا دہشت گردی نہ صرف سر چڑھ کر بول رہی ہے بلکہ ہندتوا دہشت گردی کا یہ جن اب مکمل طور پر بوتل سے باہر آچکا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی میں قائم اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے سنبھل میں جان بوجھ کر تشدد کو ہوا دی ہے۔ اکھلیش یادو نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پولیس انتظامیہ اور حکومت کیساتھ مل کر سنبھل تشدد کرایا تاکہ ریاست میں ضمنی انتخابات میں ہونے والی بدعنوانی سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔اکھلیش یادو کا مزید کہنا تھا کہ جب ایکبار سروے ہو چکا تھا تو دوبارہ اور وہ بھی اتنی صبح ایک اور سروے کرانے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کے بقول میں اس معاملے کے قانونی پہلو پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن یہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا گیا تاکہ لوگوں کے جذبات بھڑکیں ۔ اس معاملے میں دوسرے فریق کو نہیں سنا گیا۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سنبھل متاثرین کے کنبوں کے درد اور جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کو اجاگر کرتے ہوئے اردو کے پرجوش اشعار کیساتھ اپنے دکھ کا اظہار کیا۔وہیں کانگریس نے بھی سنبھل اتر پردیش میں مسلم مخالف تشدد بھڑکانے پر بی جے پی کو اڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے کہا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی اتر پردیش حکومت ریاست میں مسلم مخالف تشدد بھڑکا رہی ہے، جس میں سنبھل میں مغل دور کی ایک شاہی جامع مسجد سروے کے دوران کم از کم پانچ مسلمانوں کو شہیدکیا گیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کیلئے صورتحال ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے مقام پر پہنچ چکی ہے۔اب فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ اسی طرح مرتے رہیں گے،یا لڑکر مسلمانوں کی تابناک تاریخ دوہرانا چاہتے ہیں۔