کشمیر ی خواتین کے گم شدہ خواب
ممتازہ کے بہن بھائی ، والدہ کو اب بھی یقین ہے کہ ممتازہ اب بھی زندہ ہے
آج خواتین کا عالمی دن ہے ۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہزاروں خواتین بھارتی مسلح فوجیوں کے ہاتھوں دہشت گردی کا شکار ہوئیں ۔بھارتی فوج نے8سال لے لیکر 80سال کی عمر رسیدہ خواتین کو جنگی حربے کے طور پر عصمت دری کا نشانہ بنایا ۔کئی اہم واقعات میں سے ایک کُنن پوش پورہ ہے ،جن میں سے اکثرکو انصاف نہ ملا اور وفات بھی پاگئی۔ آج میں جموں و کشمیرکے ضلع ڈوڈہ کی اُس بیٹی کے بارے لکھ رہا ہوںجس کا نام ممتازہ تھا۔ ممتازہ کو انگریزی زبان سیکھنے کا جنون تھاممتازہ نے ایک دن ٹیچر بننے کا خواب دیکھا تھا ۔ ہمارے پڑوسی گائوں دھار میںایک کچے اور خستہ حال سنگل اسٹوری کے کچے گھر کے اندررہنے والے سفید ریش بزرگ غلام محمد بٹ جو ایک ہاتھ سے معزور تھے ۔ غلام محمد بٹ کی چار بیٹیاںاورچار بیٹے تھے بڑی دو بیٹیوں کے شادیاں ہو گئی تھی دوبیٹے محنت مزدوری کرنے گھر سے باہر ہی رہتے تھے، اور چھوٹے بجے جو ابھی نابالغ تھے بھارتی گجرات میں ایک مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے، گھر میں دو بیٹیاں اور اُن کی والدہ رہتی تھی ، غلام محمد بٹ سفید ریش بزرگ موسم گرما میں ڈوڈہ کے پہاڑوں میں بکریوں چرایا کرتے تھے ۔ غلام محمدبٹ اُس وقت 60برس کے تھے جب وہ بکریوں کے ریوڑ کو کاستی گڑھ سے دور دیسہ علاقے کے پہاڑوں پر لے کر گئے تھے ۔ بکریوں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرنے کیلئے اُسے کئی دن درکار تھے اور اس سفر میں اُن کے دونوںبڑے بیٹے محمد حنیف اور بختاور بھی اُن کے ساتھ مددگار کے طورساتھ گئے تھے ۔
بھارتی فوجی کی دس راشٹڑیہ رایفلز (10RR) کاکیمپ جو ہائر سیکنڈر سکول کاستی گڑھ کے بلکل پاس تھا، فوجی اہلکار ہائر سیکنڈری آنے جانے والی طالبات کو اکثر تنگ کرتے تھے اُن پر جملے کستے تھے ۔ مقامی لوگوں نے کئی مرتبہ بھارتی فوجی کے اس رویے پر شدید احتجاج بھی کیا ۔جس پر بھارتی فوج نے بعد میں کئی افراد کو عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا اور اُن پر انتہائی تشدد کیا جس کی وجہ سے یہ آواز کسی نہ کسی حد تک دب گئی ۔
کاستی گڑھ میں یہ بھارتی فوج کا کیمپ ایک میجر کے زیر کنٹرول تھا، جو مقامی لوگوں کو اپنا نام میجر طارق(مسلم) کے طور ظاہر کرتا تھا ۔لیکن حقیقت میں اُس کا نام(R.K.Tarvadi) راکیش کمار ترویدی (ہندو)تھا۔
ممتازہ کی بے رحمی اور بے بسی کی داستان لکھنے سے پہلے میجر راکیش کمار ترویدی (میجر طارق) کا مختصر سا تعارف قارین کے سامنے رکھنا لازمی ہے ۔
میجر راکیش کمار ترویدی (میجر طارق) تلاشی اپریشن کے دوران گھروں میں داخل ہونے اور خواتین پر جنسی تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے جن میںسے کاستی گڑھ کا ایک مشہور واقعہ جس میں میجر راکیش کمار ترویدی (میجر طارق) اور اس کی ایک مخبر((SOGجس کا نام اومیش ولد گنہ سنگھ جو مقامی تھا جو بھارتی فوجی کیمپ میں ہی میجر کے ساتھ رہتا تھا,دسمبر 1999 بھارتی فوج کے میجر نے اومیش سنگھ اورتین فوجی اہلکاروںکو مددسے اندھیرے میں محمد شریف ولد منگت اللہ کے گھرکو گھیر لیا ،فوجی اہلکاروں کو باہر کھڑا کرکے تلاشی کے بہانے میجرراکیش کمار ترویدی ( میجر طارق ) نے اپنے ساتھ اومیش کے ساتھ محمد شریف کے گھر میں داخل ہوا۔محمد شریف اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں گیا ہوا تھا اور گھر میں محمد شریف کے والد، بیوی اور دو چھوٹے بچے تھے ۔ بھارتی فوج کے میجر اور اومیش سنگھ نے محمدشریف کے بچوں اور والد کو ایک کمرے میں بند کرکے محمد شریف کی بیوی کو اجتمائی زیادتی کانشانہ بنایا ۔جب صبح مقامی لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تولوگ اُن کے گھر جمع ہوئے لیکن بھارتی فوجی کیمپ کے پاس رہنے والے سبھی لوگ ڈر اور خوف میں مبتلا تھے کہ آواز بلند کریں تو شائد کل ہمارے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوگا۔محمد شرف جوکہ ایک مزدور تھا اس نے اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ ڈوڈہ تھانے کے باہراحتجاج کیا ۔محمد شریف نے بیوی بچوں کے ساتھ ڈیڈ ماہ تک احتجاج کیا ۔مقامی اخبارات میں اُن کی سٹوری چھپی لیکن اُنہیں انصاف نہ ملا۔کسی حد تک احتجاج کرنے کے بعد محمد شریف بے بسی کے عالم میں گھر لوٹا، اور بے بسی کے عالم میں خاموش ہوگیا۔اسکے علاوہ میجرراکیش کمار ترویدی (میجر طارق) کا جنوری 2000میں فوجی کیمپ کے قریبی ایک مرتبہ عسکریت پسندوں سے سامنا ہوا ، مختصر سے جھڑپ کے بعد عسکریت پسند بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔غصے میں آکر میجر راکیش کمار ترویدی نے وہاں مقامی راہگیرخوشی محمد جو جنگلات میں گارڈ تھا، دوچھوٹے بچے جو ٹویشن سنٹر جارہے تھے جن کی عمریں 10سال سے کم تھی اُن کو روک کر ان کو گولیوں کانشانہ بنا کر اپنا غصہ اتارا جس سے ان تینوں کی موت ہوگئی ۔دوسرے روز میڈیا میں ان تینوں کو کراس فائرنگ میں مارے جانے کی خبر جاری کی گئی۔
آج خواتین کا عالمی دن ہے ۔کشمیر میں ہزاروں خواتین بے بسی اور بے رحمی کی داستان بنی ہوئی ہیں ۔ان میں سے ہی ایک کاستی گڑھ ڈوڈہ کی 16سال کی ممتازہ بھی ہے ۔جن کے والد غلام محمد بٹ نے انصاف کیلئے ہر کوئی دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انصاف نہ ملا اور یوں ہی 91برس کی عمر میں2020ء میں اس درد ، اس کرب ، کو سینے میں لئے ہی دفن ہوئے ۔
غلام محمد بٹ کی دو بیٹیا ں ہائر سیکنڈری سکول کاستی گڑھ میں زیر تعلیم تھی، 16سال کی ممتازہ نے سن2000کے ابتدائی مہینوں میں اپنی 10ویں جماعت مکمل کر لی تھی،اپنے گائوں دھار سے کاستی گڑھ میں اپنے اسکول تک پہنچنے کے لیے ممتازہ کو پیدل تقریباًایک گھنٹے کا سفر پیدل طے کرنا پڑھتا تھا، ممتازہ کے بہن بھائیوں کا کہنا ہے کہ اسے انگریزی زبان سیکھنے کا جنون تھا اور اس نے ایک دن ٹیچر بننے کا خواب دیکھا تھا۔
ممتازہ کے والدغلام محمد بٹ گرمیوں کے کچھ مہینے دیسہ کے ان پہاڑوں پر ہی اپنے بکریوں کو چرانے میں گزارتے تھے ، 3جون 2000 کی گرمی کے شدید گرمی کا دن تھا ، جب چار لڑکوں اور چار لڑکیوں کے بوڑھے والد غلام محمد بٹ نے اپنے دو بیٹوں حنیف اور بختاور کے ساتھ اپنے ریوڑ چرانے کے لیے دھار ، کاستی گڑھ سے اپنی بکریوں کو لے کر دیسہ کے پہاڑوں کی طرف پیدل سفر شروع کیا ، ان کے دو بیٹے گجرات کے ایک اسلامی مدرسے میں پڑھ رہے تھے اور باقی دو بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔جب کہ گھر میں 16 سالہ ممتاز اور 19سالہ فریدہ بانو گھر کی دیکھ بھال کے لیے اپنی والدہ زونہ بیگم کے ساتھ تھی۔
غلام محمد بٹ کو کیا خبر تھی کے گھر میں قیامت آجائے گئی،
اسی دن دوپہر کے آخر میں10راشٹریہ رائفلز (10RR) اہلکارجن کے ساتھ دو مقامی (SOG)اہلکاربھی ساتھ تھے معمول کے گشت پر آئے۔ ان کے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے فوجی اہلکاروں نے ان کے دو کتوں پراندھا دھندگولیاں برسائیں جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
ان کی والدہ کے مطابق ممتازہ اور فریدہ نے جب گولیوں کی آواز سُنی تو انتہائی خوف کے عالم میں گھر سے باہر نکل آئیںاور دونوں بہنیں رونے لگیں ،کہ بھارتی فوجیوں نے ہمارے کتوں کو کیوں مارا ۔ ممتازہ اور فریدہ کی والدہ نے جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ہمارے کتوں کو کیوں مارا، تو فوجی اہلکاروں نے کہا کہ جب بھی ہم آپ کے گھر سے گزرتے تھے تو کتے ہم پر بھونکتے تھے، جس سے عسکریت پسندوں کو علاقے سے بھاگنے کے لیے وقت مل جاتاہے ۔ خاندان کے تینوں افراد نے اپنی رات اپنے دو کتوں کے مارے جانے پر غم میں گزاری، یہ نہیں جانتے تھے کہ بدترین مشکل ابھی آنا باقی ہے۔ 4جون، 2000کا دن تھا جب غلام محمد بٹ اور اس کے دو بیٹے اپنے ریوڑ کے ساتھ گھر سے انتہائی دورایک جنگل میںٹھہرے تھے،اُنہیں یہ پتہ نہیں تھاگھر میں خاندان کے افراد کو انتہائی بدترین حالات کا سامنا ہے ۔
بھارتی فوجی عسکریت پسندوں کو تلاش کرنے کے بہانے دن ہو یا رات کسی بھی وقت گائوں میں داخل ہوتی تھی ۔ رات کے 11بجے رہے تھے ، ممتازہ ، فریدہ انتہائی پریشانی کے عالم میں تھیں ، اچانک بھارتی فوجیوں کے چلنے کی آوازیں اُن کے بوٹ سے آنے لگی ، ممتازہ ، فریدہ اور اُن کے والدہ کو ایسے لگا جیسے گاوں میںبھارتی فوج کی طرف سے تلاشی مہم چل رہی ہو۔ لیکن اچانک دروازے پر ایک زوردار دھکا نے ممتازہ اور فریدہ کی والدہ زونا کو بے چین کر دیا۔زونا کہتی ہیں دروازے پر لاتیں مارتے ہوئے 10راشٹریہ رایفلز کے لوگ خوف ناک آواز سے کہہ رہا تھے کہ دروازہ کھولو ۔لیکن ہم نے دروازہ نہیں کھولا اورچند ہی منٹوں میں وہ لوہے کی گرل توڑ کر کھڑکی سے اندر سے گھس آئے جن کے ساتھ دو مقامی(SOG) مخبر بھی تھے جس میں ایک کا نام جاوید تھا۔ اور میری بیٹی ممتاز کو گھسیٹنے لگے۔ میں نے اور فریدہ نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں، تاکہ وہ اسے باہر نہ نکال سکیں۔ لیکن ان کی طاقت کے سامنے ہماری طاقت بہت زیادہ کمزور تھی، زونا کا کہنا تھا کہ مجھے اب بھی یاد ہے، کس طرح اس کی بیٹی زور زور رو رہی تھی جب کہ میں اور میری دوسری بیٹی بے بسی کے عالم میں گھسیٹ کر گھر سے باہر لے جانیوالے بھارتی فوجیوں سے ایک آواز کہتی رہی کہ وہ اسے چھوڑ دیں لیکن اُنہوں نے ایک نہ سُنی ، بیٹی کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ہمیں گھر میں بند کردیارات کے آخری پہرتک گھر کے باہر اُن کے چلنے کی آوازیں آتی تھی اس کے بعد وہ وہاں سے غائب ہو گئے صبح روشنی کے بعد جب والدہ اور بیٹی نے اہل محلہ کو بتایا کے اُن پر رات قیامت ڈھائی گئی ۔اہل محلہ کی طرف سے ممتازہ کے اغوا کے بارے پیغام پہنچانے کے لیے ان کے والد اور بھائیوں کو فورا ایک آدمی بھیجا دیا گیا۔غلام محمد بٹ اور اس کے بیٹوں کے پاس پیغام دیر سے پہنچا اور وہ ساتویں دن ہی واپس گھر پہنچنے میں کامیاب ہوا اور فوراً ہی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کے لیے ضلع ہیڈکوارٹر ڈوڈہ پہنچا۔ ایف آئی آر میں اس نے اُن دو مقامی ایس پی اوز کے ناموں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے کاستی گڑھ میں تعینات مقامی آرمی یونٹ10راشٹریہ رائفلز (10RR) کے مخبر کے طور پر کام کرتے تھے ۔ جن دو مقامی ایس پی اوز کے نام بتائے اُن کی شناخت غلام محمد بٹ کی بیٹی اور بیوی نے کی تھی۔
غلام محمدبٹ کا کہنا تھاکہ جیسے ہی وہ تھانے سے باہر نکلا، کچھ فوجی اہلکار وں نے اسے ایک فوجی جیپ میں بٹھایا اور سیدھا ڈوڈہ پولیس لائنز میں واقع آرمی کمانڈر کے دفتر میں لے گئے۔
غلام محمد نے ایک بار یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر نے اپنے سیکنڈ انچارج سے کہا کہ وہ مجھے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ڈوڈا کے پاس لے جائے، انہوں نے مجھے پھر فوجی جیپ بٹھایا اور وہ مجھے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر لے گے۔جہاں اُس وقت ایک سکھ ایس پی تھا جو کشمیری زبان اچھی بولتا تھا اور اس نے مجھے 6 لاکھ روپے اور خاندان کے دو افراد کے لیے نوکری کی پیشکش کی،کہ اگر میں اپنا کیس واپس لے لوں۔ لیکن میں نے اس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اپنی بیٹی مردہ یا زندہ مانگا۔ جب میں اپنے موقف پر اٹل رہا تو اس نے مجھے اپنے دفتر سے باہر نکال دیا۔
غلام محمد بٹ کا کہنا تھاکہ اس کے بعد سے تھانے میں درج مقدمہ میں کبھی پیش رفت نہیں ہوئی حالانکہ غریب بوڑھے نے کئی مرتبہ تھانے کے متعدد چکر لگائے، جب بھی میں ان کے پاس جاتا، وہ مجھ سے گواہ لانے کو کہتے۔جس وقت یہ سانحہ میرے ہمارے ساتھ ہوا اس وقت صرف میری بیٹی اور اس کی والدہ موجود تھیں۔ اہل محلہ کا کہنا ہے کہ ممتاز کے لاپتہ ہونے کے ایک سال بعد پھر اس کی بڑی بہن 19 سال کی فریدہ جس نے اسے فورسز کے ہاتھوں چھینتے ہوئے دیکھا تھا، دل کا دورہ پڑنے سے چل بسی ۔اہل محلہ کا کہنا ہے کہ وہ اُس دن سے اپنی تعلیم اپنا سب کچھ کھو چکی تھی، اُس کے ہونٹوں پر ہمیشہ ممتازہ اور اُس کو گھر سے گھسیٹے وقت اپنی اور والدہ کی بے بسی انتہائی صدمہ میں لے گئی وہ اپنی چھوٹی بہن سے جدائی برداشت نہ کر سکی اور مر گئی
ممتازہ کے والد نے ایک بار بتایاتھا کہ کہ اس کے لیے انصاف کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوگی وہ اپنی بیٹی کو زندہ یا مردہ دیکھنا چاہتا تھا ۔بیٹی کے بھارتی فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں اغوا کے چند ماہ بعد کیس کو جموں و کشمیر اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن ((جے کے ایس ایچ آر سی) سری نگر کے پاس لے گیا، جہاں چند سماعتوں کے بعد کمیشن کا چیئرمین تبدیل ہو گیا، جس سے کیس کو روک دیا گیا۔ اس کے بعد وہ کرائم برانچ، جموں چلا گیا، جہاںکرائم برانچ کے ایک آفیسر نے اسے دوبارہ گواہوں کے ساتھ آنے کو کہا۔غلام محمد بٹ نے مقدمہ کی پیروی کے لیے مجھے جموں اور سری نگر کے سفر کے لیے مالی امداد کے لیے اپنی بکریاں بھی بیچنی پڑی۔غلام محمد کا کہنا تھا کہ میرا سوال صرف یہ تھا کہ میں صرف یہ یہی سننا چاہتا تھا کہ میری بیٹی مر گئی ہے یا زندہ؟
2020میں میری غلام محمد بٹ سے آخری بار بات ہوئی ,اُنہوں نے پہلے کی طرح اس ہی بات کو دہرایا کہ انصاف کی تمام دکانوں سے مایوس ہونے کے بعد بھی اُن کا کہنا تھا کہ ممتازہ کے بہن بھائی ، والدہ کو اب بھی یقین ہے کہ ممتازہ اب بھی زندہ ہے،لیکن مجھے سب سے زیادہ خوف ہے اورمیں جانتا ہوں کہ انہوں نے اسی سال اسے مار ڈالا ہے اسلئے انہوں نے مجھے نوکری اور چھ لاکھ کی آفر کی تھی اور میں ان کی طرف سے بیٹی کے خون کی رقم نہیں لینا چاہتا۔میں ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی چاہتا ہوں کہ اگر وہ مر چکی ہے تو وہ مجھے اس کی قبر دکھائیں، تاکہ میں اپنے آپ کو یقین دلا سکوں کہ میری بیٹی کسی جگہ زمین کے نیچے قبر میں ہے ۔ اور اگر زندہ ہے تو اسے ہمارے پاس واپس لائیں ۔
2017میں پہلی بار جب ایک معروف صحافی راقب حمید نائیک نے ان کے گھر جاکر ممتازہ کی بلیک وائٹ ایک تصویر کے ساتھ ان کے والد غلام محمد بٹ جو اب مرحوم ہیں اُن بھی ایک تصویرجس میں سفید داڑھی والاکٹے ہوئے بائیں ہاتھ کے ساتھ ایک پتلا آدمی، سر پر سفید ٹوپی بھورے رنگ کا کوٹ پہنے ، ایک پھٹے ہوئے سفید کرتہ پہنے ، غلام محمد چرواہا ہاتھ میں تھامے 22 اپریل 2003 کو شائع ہونے والا ہفتہ وار اخبار ارود "صدا کوہسار” ڈوڈہ ضلع کی کاستی گڑھ تحصیل کے ایک چھوٹے سے گاوں دھار کا رہنے والا، غلام اس بے رحمی کا زندہ گواہ تھا اپنی ایک رپورٹ میں جاری کیا تو تب جاکر انٹر نیٹ کی دنیا میں یہ واقعہ منظر عام پر آیا ،کاستی گڑھ کا ہر فرد بھارتی فوج اور SOGاہلکاروں کی بے رحمی کی اس داستان سے واقف تو تھا لیکن اسے دنیا تک پہچانے سے قاصر تھا۔ 2020میں 91برس کی عمرمیں غلام محمد بٹ انتقال کرگئے ۔اُس کے آخری الفاظ میرے کانوں میں آج بھی گونچ رہے ہیں کہ مجھے اللہ نے لمبی عمر اس لئے عطا کی تاکہ میں اپنی بیٹی کیلئے انصاف کیلئے آواز بلند کروں ۔ یہ داستان صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی صرف ایک بیٹی کی ہے جس میں بھارتی فوج کا اصل چہرہ دکھائی دے رہا ہے ۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہزاروں خواتین ہیں جن پر قیامتیں ڈھائی گئی ، مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہر دوسرے گھر کی ایک داستان ستم ہے بھارتی فوج اور اُن کے کارندوں نے کشمیری خواتین کوگرفتار کرکے فوجی کیمپوں میں پولیس جیلوں میںاور تلاشی اپریشن کے نام پر گھروں میں داخل ہوکر اُن کی عصمت کو پامال کیا گیا ۔بحثیت انسان ہماری زمہ داری ہے، ہم پر فرض ہے بھارتی مظالم سے اُن کو نجات دلانا۔ انسانیت کیلئے آواز بلند کرنا ، زندہ قومیں اپنے اپر ہونے والے مظالم کبھی نہیں بھلاسکتی ۔آج کے دن دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے ۔لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور کے اندربھی ہزاروں خواتین دنیا میں جو اتنی پسی ہوئی ہیں ۔ بھارت ریاستی پالیسی کے تحت خواتین پر ہر طرح کا جسمانی و زہنی نفسیاتی تشدد کیا جاتا ہے۔ وہ ایک بیوہ کی زندگی گزارتی ہیں، اُن کو ہاف وڈوز ، ہاف مدر کے نام سے دنیا جانتی ہے ۔ دنیا میں عورتوں کے حقوق کے کئی قوانین ہیں لیکن مقبوضہ جموں وکشمیرکی خواتین کیلئے خاموشی انسانیت سے ناانصافی ہے۔دنیا میں انسانیت کی نام پر بننے والی تنظیموں ، اداروں کا فرض ہے کہ بے بس کشمیری خواتین کو کشمیر میں جاری بھارتی فوجی بربریت سے نجات دلائیں ۔
کے ۔ ایس ۔کشمیری
kayesskashmiri@gmail.com