تین دہائیوں سے یہی کچھ چلاآرہا ہے
مقصود منتظر
یقین نہیں آتا دیکھا نہیں جاتا کچھ سنا بھی نہیں جاتا ایک ایسا منظر جو حساس دل والوں کیلئے قیامت سے کم نہیں ہے۔
لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پر ابھی ابھی قدم رکھنے والے دو طالب علموں کی آنکھوں میں تیرتا آنسو ان آنسووں میں سمندر جیسا طوفان چہروں پر چیختے چلاتے تاثرات جو ہر شے پر لرزہ طاری کرتے ہیں ۔ لبوں پر ایسی خاموشی جو عرش کو دستک دے رہی ہے جو خالق کائنات کو شکوے شکایت کررہی ہے کہ اے رب کائنات کیا ہمیں صرف مرنے کیلئے جوان ہونا پڑا ۔
اے مالک ارض و سما اتنی بے بسی اتنی محکمومی صرف ہمارے کیلئے کیوں۔؟
وہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن آس پاس ایسی سماعتیں نہیں۔ وہ اپنی صفائی پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں انصاف کی توقع نہیں وہ شاید اپنی جان کیلئے بھیک بھی مانگتے لیکن وہ جانتے ہیں ۔آج بچ بھی گئے جلد کسی اور دن چند گولیوں کا شکار ہونا ہیں
وہ اس لیے بھی خاموش ہیں کیونکہ آس پاس ہر شے خاموش ہے ۔جس مقتل گاہ میں قاتل انہیں لےکر جارہا ہےاس کی طرف جانے والی سڑک ویران ہے بستی سنسان ہے ،انسان مقید زنداں ہیں ان کے اپنوں کو بھی پتہ نہیں ان کے پیاروں کو بھلی چڑھایا جارہا ہے
کسی رشتہ دار کو بھی خبر نہیں کہ ۔ ان کے عزیز چند گھڑیوں کے مہمان ہیں ان کے بہن بھائی بھی صورتحال سے بے خبر ہیں البتہ قاتل اور قتل ہونے والے انجام بخوبی جانتے ہیں۔ سفر تیزی سے طے ہورہا ہے ۔مسافت برق رفتاری سے گھٹ رہی ہے قتل گاہ قریب سے قریب تر ہورہا ہے گھنٹے منٹوں اور منٹ لمحوں میں بدل رہے ہیں ۔
دونوں دل ہی دل میں اپنے خالق اور مالک سے پوچھ رہے ہیں ۔
یا اللہ بس اتنی سی زندگی میں ۔ ہماری موت کی آخر کوئی وجہ گردن کاٹنے کی کوئی دلیل ۔
چلو مان لیا موت برحق ہے لیکن اتنی خاموشی اور راز داری کے ساتھ ۔
اے عرش والےکچھ تو بتا کیا پیدا ہونا ہمارا قصور ہے۔ آسمان والےکیا یہ جرم ہے ۔۔کشمیر میں پیدا ہوئے ہیں
ڈرائیور دونوں کو سومو ٹاٹا سے اتارنے سے پہلے منظر کی تصویر کشی کرتا ہے ۔
پھر چند منٹوں بعد گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے ۔۔۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آس پاس جاگ جاتا ہے ۔
لیکن اس وقت تک وہ دونوں ہمیشہ کیلئے سوچکے ہوتے ہیں
کشمیر کے ضلع بڈگام میں قابض فوج کے ہاتھوں قتل ہونے ولے ارباز میر اور شاہد شیخ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کی طرح جوان ہونے سے پہلے اگلی جہاں پہنچ گئے
وادی کشمیر میں مرنا مسئلہ نہیں ۔ لیکن مرنے سے پہلے بے بسی اور بے کسی بڑا مسئلہ ہے قاتل یہ بھی نہیں بتارہا ہے کہ وہ نہتے انسان کے سینے پر گولیاں کیوں چلا رہا ہے یہی نہیں قاتل کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں کہ ارے تم نے گرم لہوسے ہاتھ کیوں رنگ دیئے
معصوموں کی جان کیوں لی ۔
کیونکہ تین دہائیوں سے یہی کچھ چلاآرہا ہے ۔ کشمیریوں کی نشل کشی جاری ہے ۔اور والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں سے محروم ہورہے ہیں ۔ مائیں اپنی لخت جگروں کی جدائی سے پاگل ہورہی ہیں
ان کے لبوں پر بس اک فریاد ہے ۔
ابھی آنکھ کھلی تھی ،ابھی سوگیا کیوں
بتا اتنی جلدی تو بڑا ہوگیا کیوں۔ (مقصود منتظر)