مضامین

غزوہ بدر اور اہل غزہ

محمد شہباز

shabaz-lone-columnist-656x720ماہ مقدسہ کا مہینہ جہاں پوری ملت مرحومہ پر پوری آب وتاب کیساتھ سایہ فگن ہے وہیں اسی ملت مرحومہ کے پہلے قبلہ اول بیت المقدس کے وارث خاک وخون میں غلطان ہیں۔ان پر عملا قیامت مسلط ہے اور کوئی مہوم سی آواز بھی ان مظلوم،محکوم اور بے یارو مدد گار فلسطینیوں کے حق میں بلند نہیں ہورہی ہے۔سوائے یمن کے حوثیوں کے،جنہوں نے انسانوں کی جانب سے کھینچی گئی سرحدوں سے سینکڑوں میل دو ر ان مظلوم فلسطینیوں کی مددکیلئے صہیونی اسرائیلی بندرگاہ کی جانب جانے والے ہر اس بحری جہاز کو نشانہ بنایا ،جو غزہ میں اسرائیلی سفاکیت کو جاری رکھنے کیلئے بطور لائف لائن فراہم کرنے میں پیش پیش تھے۔حوثیوں کے حملوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اسرائیلی بندر گاہ ایلات ویران پڑگئی ،جس کے نتیجے میں ایلات بندگاہ پر کام کرنے والے ہزاروں کارکن اور ملازم بے روز گار ہوگئے۔حوثیوں کو ناجائز اسرائیل کے روحانی باپ امریکہ اور برطانیہ کے کئی بار حملوں کا نشانہ بھی بننا پڑا لیکن وہ اہل غزہ کی حمایت پر کمر بستہ ہیں ،جس پر وہ انسانیت کا درد محسوس کرنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی داد سمیٹ رہے ہیں۔انسانیت کے قاتل اور درندہ صفت نیتن یاہو غزہ کو ملیا میٹ کرکے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔07 اکتوبر 2023 سے لیکر آج کے دن تک 33ہزار اہل فلسطین شہادت پر فائز ہوچکے ہیں،سات سے دس ہزار افراد ملبے تلے دھب چکے ہیں ،جن کے زندہ ہونے کی آب کم ہی امید ہے۔76ہزار سے زائد زخمی ہیں ۔شہدا میں 12ہزار بچے اور دس ہزار خواتین شامل ہیں۔جس سے یہ بات سمجھنے میں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ صہیونی اسرائیل مستقبل کے معماروں اور آنے والے دور میں جنم دینے والی اہل غزہ کی مائوں،بہنوں اور بیٹیوں کو جان بوجھ کر اور ایک منصوبے کے تحت نشانہ بنارہا ہے۔غزہ دنیا کے سب سے بڑے قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔بھوک اور پیاس اہل غزہ پر مسلط کی جاچکی ہے۔جس کے نتیجے میں چالیس کے قریب فلسطینی اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں۔خاندانوں کے خاندان ختم کیے گئے۔آل امل،الشفا اور النصیر ہسپتال انسانی لاشوں سے آٹے پڑے ہیں۔
بھوک اور پیاس کا یہ عالم ہے کہ اہل غزہ گھاس سے روزہ رکھتے اور گھاس سے ہی افطاری کرتے ہیں۔ملبے کے ڈھیر پر اہل غزہ کی نماز تروایح کی ادائیگی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں ،جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قرآء مائیک ہاتھ میں لیے نماز تروایح پڑھاتے ہیں۔رفح جہاں پندرہ سے بیس لاکھ فلسطینی عارضی خیموں میں پناہ گزین ہیں ،ماہ مبارک کا استقبال کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔صہیونی اسرائیل ایک منٹ کیلئے اہل غزہ کو سانس نہیں لینے دے رہا۔فضائی،زمینی اور بحری راستوں سے دن رات اہل غزہ پر بمباری جاری ہے۔اسرائیلی ٹینک اور بلڈوزر سامنے آنے والے ہر چیز کو ملیا میٹ کرتے نظر آرہے ہیں۔ امریکہ،برطانیہ،فرانس،جرمنی ،اسٹریلیا،کینیڈا اور دوسرے ممالک اپنی ناجائز اولاد کو وہ تمام گولہ بارود اور ہتھیار فراہم کررہے ہیں جو اہل غزہ کی نسل کشی میں بغیر کسی خوف و ڈر کے استعمال ہور ہے ہیں۔اس کے مقابلے میں تحریک مزاحمت حماس ٹوٹے پھوٹے بندقووں اور مقامی سطح پر تیار کردہ الیاسین گولوں سے گلی کوچوں اور چوک چوراہوں میں صہیونیوں کا اس عزم کیساتھ مقابلہ کررہے ہیں کہ جنگیں ہتھیاروں اور توپ و تفنگ سے نہیں بلکہ اسلام کے بتائے ہوئے آفاقی اصولوں،جذبوں اور نظریئے کی بنیاد پر پر لڑی جاتی ہیں اور شیخ احمد یاسین کے یہ بچے حماس کے مجاہدین حالات کے تمام تر جبر کے باوجود پورے قد وکاٹھ کیساتھ کھڑے ہر گزرنے والے دن کیساتھ یہ ابدی پیغام دیتے ہیں کہ بھلے ہی وہ مظلوم سہی لیکن جذبہ ایمانی کوئی ان سے سیکھے۔ زندہ رہنا کوئی ان سیکھے،مجال ہے قیامت مسلط ہونے کے باوجو اہل غزہ نے حماس کے بارے میں لب کشائی کی ہو،حالانکہ اسرائیل اور اس کا باپ امریکہ سر کے بل تک لٹک گئے کہ اہل غزہ کو حماس کے خلاف بھڑکایا جائے مگر ایک جملہ تو دور ایک لفظ بھی اہل غزہ کے منہ سے حماس کے خلاف نہیں نکلواسکے بلکہ وہ حماس کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ،جو اس بات کی دلیل ہے کہ اہل غزہ اور حماس ایک دوسرے کیلئے ناگزیر اور لاز م و ملزوم ہیں۔
اہل غزہ کا جرم کیا ہے جس کی وہ گزشتہ 77 برسوں سے زائد عرصے سے سزا بھگت رہے ہیں؟ یہی اس پورے آرٹیکل کا ماخذ ہے،جس سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔آقائے دوجہاں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ساڑھے پندرہ سو برس قبل بیت المقدس کے آس پاس رہنے والوں سے متعلق کیا فرمایا یا پیشنگوئی کی تھیں۔کائنات کے دریتیم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین سے فرمایان: لا تزال طائِف مِن امتِی علی الدِینِ ظاھِرِین لِعدوِھِم قاھِرِین لا یضرھم من خالفہم اِلا ما اصابہم مِن لاوا حتی یاتِی امر اللہِ وہم کذلِک قالوا و این ھم؟ قال بِبِیتِ المقدِسِ و اکنافِ بِیتِ المقدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتی کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں۔
آج کائنات کے دریتیم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا یہ گروہ بیت المقدس کی حرمت و عظمت کی بحالی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرچکے ہیں۔ان کے پاس کچھ نہیں بچا۔اس گروہ کو بعینہ ہی اسی طرح گھیر کر اس پر بھوک اور افلاس مسلط کی گئی جیسے خود دریتیم صلی اللہ وعلیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیت اطہار پر شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کرکے مسلط کی گئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب اطہار بھی گھاس اور درختوں کے جڑ کھانے پر مجبور کیے گئے اور آج اہل غزہ بھی اسی صورتحال سے دوچار کیے گئے۔جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ تین برسوں تک جاری رکھا گیا جس کا اسلام کے آفاقی نظام انقلاب کو روکنا مقصود تھا مگر جیسے اسلام کا آفاقی نظام پوری دنیا پر غالب آنے سے نہیں روکا جاسکا اور پھر یہ کائنات دریتیم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے گھرخانہ کعبہ میں عزت و عظمت اور پوری شان کیساتھ قدم مبارک فرماتے اور وہاں موجود بتوں کو نیست و نابود اور اللہ کی کبریائی کا ڈنکا بجانے کا مشاہدہ کرچکی ہے۔اسی طرح آج غزہ کی ایک چھوٹی سے پٹی چاروں اطراف سے گھیر کراس کے رہنے والوں کا قتل عام اور ان پر بھوک اور تنگدستی مسلط کی جاچکی ہے۔ان کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ اور نعرہ ہے الحمداللہ ۔کیا اہل ایمان اب بھی کسی معجزے کے انتظار اور تلاش میں ہیں کہ 1967ء میں چار عرب ممالک اردن،مصر،شام اور لبنان صرف 06 دنوں تک اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکے اور چاروں ممالک کو اپنے بڑے رقبے سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔اس کے مقابلے میں 07اکتوبر 2023 سے اسرائیل کو حماس کے ہاتھوں ایسی ہزیمت اور رسوائی کا سامنا ہے ،جس کا تصور بھی اسرائیل اور اس کے حواریوں کو نہیں تھا۔آئے روز اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں تل ابیب پہنچ رہی ہیں ،جو یہود و نصارا میں کہرام مچاتی ہیں۔
یقینا آج غزہ کی سرزمین بدر وحنین اور خندق کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔میدان بدر میں 313 ایک ہزار سے زائد کے مقابل بے سرو سامانی کی حالت میں پہنچے تو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیلئے فرشتے اتارے اور پھر رہتی دنیا تک یہ سرمدی اصول قرار پایا کہ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی ۔خود اسرائیلی جرنیل اس بات کا کھلے عام اعتراف کررہے ہیں کہ حماس کی قوت کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔حماس اندازوں سے بھی زیادہ قوت کیساتھ مقابلہ اور مزاحمت کرتی ہے۔ یہ دور بھی گزر جائے گا،اہل غزہ پھر ایکبار پورے قد کاٹ کیساتھ غزہ کی تعمیر نو کریں گے ،حماس پھر سے غزہ کے معاملات کی دیکھ بھال کریگی البتہ امت کہاں کھڑی ہے ،عرب کیسے اہل غزہ کا سامنا کریں گے؟یہ بہت بڑا سوال ہے جو ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔جس کا جواب آج نہیں تو کل انہیں دینا پڑے گا،البتہ شائد وقت اور حالات پھر ان کے حق میں نہیں بلکہ مخالفت میں ہوں گے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button