نام نہاد بھارتی یوم جمہوریہ
محمد شہباز:
نام نہادبھارتی یوم جمہوریہ بھارت کی جمہوری ناکامی کو چھپانے کا محض ایک بہانا ہے، کیونکہ یہ بی جے پی کی جنونی حکومت کے عروج کے ذریعہ اس کے معاشرے میں ناقابل اصلاح مسائل سے دوچار ہے۔سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود، بھارت کی سیاسی جماعتیں خاص طور پر بی جے پی کا غیر معمولی عروج ہمیشہ اکثریتی ہندوتوا پرچم کو لہرانے پر مرکوز رہا ہے۔2014 اور 2019 میں ہندو توا بی جے پی کے عروج کے بعد گاندھی اورنہرو کی جانب سے تخلیق کیے گئے جھوٹے جمہوری چہرے کی حقیقت کا امتحان ہے۔ بھارتی معاشرے میں سیاسی دراڑیں اور پولرائزیشن غیر معمولی رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، کیونکہ بی جے پی اسے بھگوا ریاست کے رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ بھارت کی نام نہاد سیکولر اقدار کے بالکل برعکس، ہندو قوم پرستوں کا استدلال ہے کہ ہندو ثقافت بھارتی تشخص کی وضاحت کرتی ہے اور اقلیتوں کو اس اکثریتی ثقافت کی سختیوں کو قبول کرتے ہوئے سرخم کرنے کی ضرورت ہے۔22جنوری کو پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد کی جگہ متنازعہ رام مندر کے افتتاح کا تنازعہ اور اس کی میڈیا تشہیر بھارتی انتہا پسند جمہوری نظام کا عملی نمونہ ہے۔انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں،تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر اور اقلیتوں پر ظلم و ستم نے بھارت کو ایک جابر اور تسلط پسند ریاست بنا دیا ہے اور اس کے یوم جمہوریہ کی تقریبات اس کا اصل چہرہ چھپانے کیلئے محض ایک نقاب ہے۔تمل ناڈو کے دلتوں اور عیسائیوں جیسی اقلیتوں کو بی جے پی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بدھ مت میں تبدیلی آئی ہے۔ریاست منی پور بھارتی ناکام وفاقیت کی ایک روشن مثال ہے کیونکہ وہاں لوگوں کے مختلف گروہوں کے درمیان بہت زیادہ نسلی تشدد جاری ہے، اور بی جے پی خفیہ طور پر ہندو برادری” میتی” کی پشت پناہی کرتی ہے۔جو عیسائی برادری کوکی کے قتل عام میں ملوث ہے ۔
آج کنٹرول لائن کی دونوں جانب،پاکستان اور دنیا بھر میں نام نہاد بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جارہا ہے تاکہ بھارت کیساتھ ساتھ پوری دنیا پر یہ واضح کیا جاسکے کہ بھارت کے قومی دنوں کی اہل کشمیر کے نزدیک اس کے سوا کوئی حییثت نہیں ہے کہ وہ انہیں یوم سیاہ کے طور پر منائیں کیونکہ بھارت ایک غاصب اور قابض ہے ،جس نے کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے برعکس مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے اہل کشمیر کو طاقت کی بنیاد پر غلام بنایا ہے ۔آج کا یوم سیاہ اس لیے بھی ضروری اور بہت اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت بالخصوص مودی اور اس قبیل کے دوسرے بھارتی حکمرانوں نے 05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے اہل کشمیر کے تمام بنیادی حقوق سلب کیے ہیں۔
بھارت اگر جمہوری مزاج کا حامل ہوتا تو پھر مقبوضہ جموں وکشمیر میں وہ جمہوری فیصلوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا لیکن جیسے کہ تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانی برسوں پہلے کہہ چکے ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی جمہوریت کا جنازہ اسی دن نکل چکا ہے جب27اکتوبر 1947 میں بھارتی حکمرانوں نے دنیا کے تمام اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی افواج مقبوضہ جموں وکشمیر میں داخل کرکے بندوق کے بل پر کشمیری عوام کو غلام بنالیا۔یہ بھارت کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ ہی ہے جس کے خاتمے کیلئے اہل کشمیر آج تک سوا پانچ لاکھ جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔پوری آزادی پسند قیادت بھارتی جیلوں میں قید ہے،کشمیری عوام کی زمینوں،جائیدادو املاک پر قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔البتہ اہل کشمیر بھارت کی فوجی طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہیں،یہی تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی اور بھارت کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے اور بھارتی حکمران بار بار پتھروں سے سر ٹکرا کر اپنے آپ کو زخمی کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔
سرینگر ، جموں اوران کے گردونواح کے علاقوں میں بھارتی فوجیوں کی اضافی تعداد یکم جنوری ہی تعینات کررکھی گئی ہے تاکہ اہم علاقوں بالخصوص یوم جمہوریہ کی مرکزی تقاریب کے مقامات کی نگرانی کی جا سکے۔اہم داخلی مقامات پر مزید چوکیاں قائم کی گئی اور بھارتی افواج، پولیس اور پیراملٹری اہلکار وں کوکسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جاچکا ہے۔نگرانی کو بڑھانے کیلئے عوامی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جبکہ ڈرون سمیت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔قابض بھارتی فورجیوں نے اہم مقامات پر عارضی بنکرز قائم کیے ہیں اور کشمیری عوام کی روزمرہ زندگی کی نگرانی کیلئے ہر جگہ بلٹ پروف بکتربند گاڑیاں۔بھی تعینات ہیں
آج سے کئی دن قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول عرض میں آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے چسپاں کئے گئے پوسٹرز میں کشمیری عوام سے 26 جنوری نام نہاد بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی اپیل دہرائی جاتی رہی ہے ۔پوسٹرز میں بھارتی یوم جمہوریہ کی تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اہل کشمیر سے کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیری عوام کی خواہشات کے بر خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنا یوم جمہوریہ منانے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتا۔سرینگر اور دیگر علاقوں میں چسپاں کئے گئے پوسٹرز میں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریبات کو ایک ظالمانہ مذاق قرار دیتے ہوئے کہا گیاکہ کشمیری عوام مقبوضہ جموں وکشمیرپر بھارت کے غیر قانونی تسلط کو مسترد کرتے ہیں۔ پوسٹروں میں کشمیری عوام کو آج26جنوری کو مکمل ہڑتال اور سیاہ پرچم لہرانے کی بھی اپیل کی جاچکی ہے تاکہ دنیا کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ یہ یوم جمہوریہ نہیں بلکہ ان کیلئے یوم سیاہ ہے۔ آج پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال ہے ،جس کے باعث تمام دکانیں،کاروباری مراکز،بازار بند،سڑکیں سنسان اور بھارتی فوجیوں اور ان کی گاڑیوں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
آب تو عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ بھارت جمہوری ملک کے بجائے بتدریج ایک آمریت میں تبدیل ہورہا ہے اور سیکولر ازم بھی لرزہ براندام ہے۔کیونکہ مودی اور اس کی بی جے پی نے بھارت میں ہندتوا کو فروغ دیکر بھارت میں ہندو بالادستی کو مسلط کیا ہے۔ ایک ممتاز بھارتی صحافی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح کر کے بھارتی مسلمانوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ بھارت کے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا بھارت سے کوئی تعلق ہے ۔معروف بھارتی روزنامہ دی ہندو کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ضیا سلام نے امریکی ٹائم میگزین میں شائع ہونیوالے ایک اداریہ میں ہندو دیوتا رام کے نام سے ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر اور افتتاح کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارت میں تیزی سے پھیلتے ہوئے انتہاپسندہندوتوا نظریہ کے دوران مسلمان خود کو تنہا سمجھ رہے اور مایوسی کاشکار ہیں۔انہوں نے کہاکہ مسلمان بھارت کی مجموعی آبادی کا بیس کروڑ ہو سکتے ہیں لیکن مودی کے بھارت میں مسلمانوں کو انتہائی حقیر سمجھا جارہا ہے جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ انہوں نے اپنے اداریے میں لکھا کہ شمالی بھارت کے بعض حصوں میں مسلمان ہونا انتہائی غیر محفوظ ہے کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ وہاں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ نریندر مودی نے رام کے نام سے منسوب اس مندر کا افتتاح کیا ہے جو ایک صدیوں پرانی مسجد کی جگہ پر بنایاگیا ہے جسے 1992میں ہندو جنونیوں نے ان کی پارٹی ارکان کی طرف سے اکسانے پر شہید کیا تھا۔صحافی نے لکھاکہ رام مندر کے افتتاح سے قبل کئی ہفتوں ہندوتوا کارکنوں کی طرف سے ہر طرف جب ملے کاٹے جائیں گے، جئے شری رام چلائیں گے جب مسلمان مارے جائیں گے، وہ رام کی جیت کا نعرہ لگائیں گے جیسے نعرے گونجتے رہے ۔انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومت کے ایوانوں میں مسلمانوں کیلئے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ 1947میں تقسیم کے بعد پہلی بار حکمران جماعت کابینہ میں کوئی مسلم وزیر یا اسکا کوئی رکن پارلیمنٹ مسلم نہیں ہے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ بھارت کی 28ریاستوں میں سے کسی ایک کابھی وزیر اعلی مسلمان نہیں ہے اورریاست اتر پردیش میں جہاں ایودھیا واقع ہے، ایک ہندوانتہا پسند وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت ہے جو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر مسلمانوں کو عید کی بھی مبارکباد نہیں دیتا۔ضیا سلام نے لکھاکہ "حالیہ ہفتوں میں دارلحکومت نئی دہلی ، شمالی اور وسطی ریاستوں اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہریانہ اور مدھیہ پردیش کے مسلمانوں میں خوف و ہراس کو واضح طورپر دیکھاگیاہے۔انہوں نے لکھا کہ بھارت میں ہر طرف بھگوا لہر ہے اورمسلمان بھگوان رام کے بھکتوں کی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔نئی دہلی میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ایک بڑی ریلی میں ہندوتوا کارکن جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے تاریخی گھاٹہ مسجد کے باہر سے گزرے۔ یہ مسجد تاریخی جامع مسجد سے صرف چند فٹ دورواقع ہے۔کیا اب بھی عالمی برادری بھارتی فسطائیت پر خاموش تماشائی بنی رہے گی۔