کرناٹک ہائیکورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے:علمائے ہند
نئی دہلی 16مارچ (کے ایم ایس ) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہاہے کہ حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائیکورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے برعکس ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مسلم پرسنل لاء بورڈنے عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہاکہ یہ دستور کی دفعہ 51کے بھی خلاف ہے جو مذہب، نسل ، ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ردعمل کی روشنی میں ڈاکٹر محمد وقارالدین لطیفی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے۔ اِس لحاظ سے حجاب لازمی حکم ہے۔ اگر کوئی اِس حکم پر عمل نہ کرے تو وہ گناہگار ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ صدرجمعیت علما ہند مولانا ارشدمدنی نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتا لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ کہناکہ پردہ اسلام کا لازمی جزنہیں ہے شرعاغلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ لوگ ضروری کامطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، حالانکہ ایسانہیں ہے۔ اگر واجب اورفرض ہے تو ضروری ہے اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا۔ اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا یہ بیان کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے ، غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ پردہ اسلام میں واجب ہے اور قرآن اس کا حکم دیتا ہے۔دارالعلوم نے قومی و ملی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں۔ ممتاز عالم دین اور جمعیت علما ہند کے تعلیمی بورڈ کے صوبائی صدر مولانا مفتی سید عفان منصور پوری نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کہ حجاب اسلام میں لازمی نہیں ہے، نصوص قرآنی کے سراسر خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ غالبا جج صاحبان نے مسلم خواتین کی عمومی بے حجابی کو اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے اس لیے اب سپریم کورٹ میں جانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں پردے کا عام ماحول بنانے پر محنت کی جائے۔ امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کے ضروری اعمال اور طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرے۔ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی بھی مذہب کے ضروری مذہبی طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اس فیصلے میں مطلوبہ ضروری تصحیح کرے گی۔امیرِ جماعت نے کہا کہ ہمیں انتہائی تشویش ہے کہ یہ حکم مسلمان خواتین کو تعلیم سے دور کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم ایک اہم قومی ترجیح ہے اور اس کے لئے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے جہاں ہر کوئی اپنے عقیدے یا ضمیر پرسمجھوتہ کیے بغیر اپنی تعلیم کو آگے بڑھا سکے۔