”آزادی کا خواب“
عادل وانی
آزادی کا خواب دیکھنا یقیناً اور مشاہداً بھی زندگی کے دوسرے تمام خوابوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔دوسرے سارے خواب نرم اور گرم بستر پر لیٹ کر گہری نیند میں آنکھیں بند کرکے نہایت ہی سکون میں عالمِ برزخ کی سی صورتِحال میں دیکھے جاتے ہیں اور چند لمحات کے بعد آنکھ کھلتے ہی جب حقیقت واضح ہوتی ہے تو انسان فوراً خواب کی حقیقت سے بھی آشکار ہوتا ہے۔جبکہ آزادی کا خواب دیکھنا بالکل ہی مختلف اور مشکل بلکہ یوں کہیے کہ آگ کا دریا ہے اور اُسے پوری جوانمردی،ثابت قدمی اور حکمت و تدبر کے ساتھ پار کرجانا ہے۔اس خواب کو کُھلی آنکھوں سے مکمل جاگتے ہوٸے انتہاٸی ہوشیاری کے عالم میں دیکھا جاتا ہے۔اس خواب کو دیکھتے ہوٸے قدرت سُستی ،غفلت ،عیش کوشی،تن آسانی اور دنیا پرستی ہرگز اور ہرگز معاف نہیں کرتی۔اس خواب کو دیکھنے کے لٸے عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر چاہیے ہوتا ہے یہاں نااہلی، نا لاٸقی اور بزدلی بالکل بھی قابلِ قبول نہیں ہوا کرتی۔
آجکل سوشل میڈیا پر یٰسین ملک کے کیس کا بڑا چرچا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ یٰسین ملک نے نوجوانی سے لیکر ابتک تحریکِ آزادی کشمیر کے لٸے مسلسل اور انتھک جدوجہد کی ہے وہ قید وبند کی صعوبتوں کو مسلسل برداشت کرتے رہے ہیں۔اُن کا نام چند اُن خاص بانیوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے 1988 میں تحریکِ آزادی کشمیر کو ایک نٸی سمت دی اور پوری کشمیری قوم کو اسی نٸی جہت کے لٸے تن من دھن قربان کرنے پر تیار اور آمادہ بھی کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوم پھر آگ اور خون کے دریا پار کرتی رہی اور اس قوم نے پھر آج تک پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی کبھی گوارا نہیں کیا۔اسے حالات کا جبر کہیے یا پھر اپنے مقصد کی حقانیت پر تذبذب، کچھ لوگ قوم کی ناٶ کو بیچ منجھدار چھوڑ کر نٸے راستوں کے مسافر ہوٸے۔وہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر گاندھی طرزِ سیاست کو لیکر مورچہ زن ضرور ہوٸے اور اُن کی خوش قسمتی کہ وہ پھر بھی شہرت اور عزت کے بامِ عروج کو چُھو گٸے ورنہ قوم کو دہکتی آگ اور خون کا راستہ دِکھا کر خود سیاست اور سفارت کا محفوظ اور دنیا کے لٸے قابلِ قبول راستہ اپنانا میرے نزدیک عظیمت نہیں شاٸد رخصت کہلا سکتی ہے۔بہرحال آج کی تاریخ میں کہا جارہا ہے کہ یٰسین ملک کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا بھارت نے مکروہ منصوبہ بنایا ہوا ہے اور اب کسی بھی وقت اس پر عمل در آمد ہوگا۔خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ اُن سب نام نہاد دانشوروں کے لٸے ایک زناٹے دار طمانچہ ہوگا جو شاٸد اپنے جنم دن سے ہی مسلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سیاسی اور سفارتی اپروچ کو ہی واحد اور نتیجہ خیر راستہ سمجھتے ہیں۔یسین ملک کی پھانسی(خدانخواستہ) اس بات کی ایک اور واضح دلیل ہوگی کہ بھارت نے گاندھی سیاست اور سفارت کے مسافر کو بھی نہیں بخشا اور یہی طرزِ چانکیاٸی اور خونی سیاست بالآخر بھارت کے انتشار اور تقسیم کی وجہ بنے گا۔۔