تحریک آزادی اور یوم شہدائے جموں،تاریخ کے آئینے میں
مہاراجہ سے لیکر مودی تک کشمیری مسلمانوں پر مظالم جاری ہیں ۔
کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجائوں کا قدیم دور ،کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا ہے ، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا جاتا ہے
1822میں پنجاب کے رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جن کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا، ان کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا ۔گلاب سنگھ نے اس میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار کا اضافہ کیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846 کے معاہدہ امرتسر (ٹریٹی آف امرتسر)کے تحت) تقریبا پچھتر لاکھ روپے میں (لگ بھگ ایک لاکھ پانڈ میںانھیں کشمیر بیچ دیا۔گلاب سنگھ نے سکھوں کے دور کے نظام کو جاری رکھا اور خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک قرار دیا کیونکہ وہ معاہدہ امرتسر کے ذریعہ کشمیر کو خرید چکے تھے۔ مسلمانوں پر مہاراجہ کے مظالم جاری رہے ۔مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر ڈوگرہ حکمرانوں نے پونچھ کے مسلمان لیڈروں سردار سبز علی خان اور ملی خان کی زندہ کھالیں اتروالیں ۔ پڑھے لکھے مسلمانوں کیلئے سرکاری نوکری نہیں تھی جبکہ مہاراجا کا ڈی سی میر پور 1920مکھن سنگھ ایک ان پڑھ تھا۔
29 اپریل1931کو وہ واقعہ پیش آیا جو تحریک آزادی کا آغاز ثابت ہوا۔ اس دن جموں کے میونسپل باغ میں مسلمان موجود تھے اور امام صاحب نماز جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک غیر مسلم پولیس انسپکٹر پکارنے لگا: امام صاحب خطبہ بند کیجئے آپ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور جرم بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امام صاحب حضرت موسی علیہ اسلام اور فرعون کا قصہ بیان کر رہے تھے۔ اس واقعہ سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ سخت اشتعال پیدا ہوا۔ نماز کے فورا بعد جموں کی جامع مسجد میں ایک پرجوش احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں نوجوانوں نے پر جوش تقریریں کیں اور مداخلت فی الدین پر شدید احتجاج کیا۔ بعض مسلمانوں نے انسپکٹر کے خلاف توہین دین کا مقدمہ بھی درج کرایا۔ عدالت میں کیس چلا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ خطبہ نماز کا حصہ نہیں ہے۔
اس وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کا مشیر خاص جموں آیا۔ اس نے مسلمانوں کو ایک وفد کی صورت میں مہاراجہ سے ملنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ12جون1931 کو خانقاہِ معلی میں کشمیری مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقدہوا ۔ اس جلسہ میں ہر طبقہ کے مسلمانوں نے حصہ لیا۔ جلسے کے اختتام پر قدیر نامی ایک نوجوان جو غیر ریاستی تھا اور پٹھان قوم سے تعلق رکھتا تھا وہ سٹیج پر آیا اور مہاراجہ ہری سنگھ اور ڈوگرہ راج کے خلاف پرجوش تقریر کی۔ جلسہ عام اس نوجوان کی پرجوش تقریر کے بعد حیرانی کے عالم میں منتشر ہو گیا۔ 25جون کو اس نوجوان کو دفعہ34)الف (بغاوت کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور اس پر مقدمہ قائم کر دیا گیا اور اسے سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔
مہاراجہ کی سخت پابندیوں کے باوجود کشمیری نوجوانوں نے 1929ء میں سری نگر میں ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اسی عرصہ میں چوہدری غلام عباس ، اے آر ساغرو دیگر نے مل کر ینگ مین ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی ۔
13 جولائی1931کو قدیر خان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ عدالت کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے اور جلد ہی ان کی تعداد تقریبا سات ہزار تک پہنچ گئی۔ لوگ اس بہادر اور عظیم مجاہد کو دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ شہر میں افواہ پھیل چکی تھی کہ عبدالقدیر کو قتل کر دیا گیا ہے۔ عوام کی یہ خواہش پرزور مطالبہ میں بدل گئی ۔ ان کا اصرار بڑھتا گیا لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کوئی پروا نہیں کی۔ اس پر لوگوں نے عدالتی کارروائی دیکھنے کے لئے جیل کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔
مسلمانوں نے نماز ظہر کے لئے صفیں درست کرنی شروع کر دیں۔ نمازیوں میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اوراذان دینا شروع کی۔ ابھی اللہ اکبر کی آواز فضا میں بلند ہوئی تھی کہ گولی چلنے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ موذن کو گولی مار دی گئی ہے۔ اس شہید کا لہو آزادی کشمیر میں شامل ہو گیا۔ لیکن مسلمانوں نے اس اذان کو ادھورہ نہیں چھوڑا۔ حاضرین میں سے ایک دوسرا جوان آگے بڑھا تا کہ باقی کی اذان مکمل کر سکے تو اللہ اکبر کی دوسری صدا کے ساتھ ہی دوسری گولی نے اس موذن کو بھی شہادت عطا کر دی، یہاں تک کہ 22کشمیری مسلمانوں نے آذان کو مکمل کرنے کیلئے شہادت پیش کی۔
3 جون 1947 کو تقسیم ہند کو منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ راج برطانیہ کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاستوں کو مذہبی اکثریت کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا حق حاصل ہو گا لیکن اگر کوئی ریاست خود مختار رہنا چاہے تو اسے مکمل آزادی کا حق حاصل ہو گا۔یہ فیصلہ ہندوستانی ریاستوں کے متعلق ہوا تھا جبکہ ریاست کشمیر کبھی ہندوستان کے حصہ نہیں رہی۔کشمیری مسلمانوں کی طرف سے 19جولائی 1947کو سری نگر میں قرار داد الحاق پاکستان منظور کی گئی تھی۔مہاراجہ اور اُس کی انتظامیہ یہ دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے ۔مہاراجہ نے یہ صورتحال دیکھ کر بھارت کے ساتھ ساز باز شروع کیا۔ جموں و کشمیرکے لوگ پاکستان بننے پر بے چین تھی کیونکہ وہ پہلے ہی مہاراجوںکے مظالم دیکھ چکے تھے۔
14/15اگست کو برصغیر دو حصوں میں تقصیم ہوا اور پاکستان اور بھارت الگ الگ ریاست کے طور پر وجود میں آگئے ۔ دوسری طرف مہاراجہ جموں و کشمیر کے مسلمانوںکے اظہار سے اندازہ ہوگیا تھا کہ کشمیری پاکستان چاہتے ہیں جسے روکنا مشکل ہے ۔مہاراجہ چونکہ ایک ظالم تھا وہ مسلمانوں کی آزادی کبھی نہیں چاہتا تھااسلئے مہاراجہ تقصیم ہند اور کشمیری مسلمانوں کے جذبات دیکھ اور بھانپ کر بھارت کے ساتھ مسلسل روابط میں رہااور بھارتیوں کا بھی اس دوران جموں خفیہ طورپر بھی آنا جانا رہا۔چنانچہ ،ڈوگرہ مہاراجہ کے فوجیوں نے شیوسینا جو مسلمانوں کیلئے دشمنی کی ہی بنیاد پر وجود میں آئی ہے سے ملکر پنجاب کے ساتھ لگنے والے علاقوں میں مسلمانوںکو پریشان کرنا شروع کیا ۔ پاکستان اور بھارت کے وجود میں آنے کے دو ماہ بعد ہی14اکتوبر 1947کومہاراجہ کے فوجیوںاور شیو سینا کے بلوائیوں نے جموں کے مضافاتی علاقوں اکھنور ، ہیرا نگر ،امرے چیک، آتما پور اور کوچپورہ کے سینکڑوں گھر جلائے اور اور سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ مہاراجہ کی فوج نے اس قتل عام کی پشت پنائی کی جموں مسلم آبادی پر پانی سپلائی لائنوں کو تباہ کیا گیا ۔بجلی کا نظام درہم برہم کر دیا گیا ، بھارت میں بھی مسلمانوں کی حالت بلکل ایسی ہی تھی۔پاکستان کو وجودمیں آئے صرف دو ماہ ہوئے تھے ۔ پاکستان بننے یا پاکستان کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں کی خوشی بھارتی شدت پسند ہندوں سے برداشت نہیں ہو پا رہی ۔وہ مسلمانوں پر حملہ آور تھے ۔مسلمان ہجرت کرکے پاکستانی حدود میں داخل ہو رہے تھے ۔قافلوں پر حملے ہوتے تھے ۔ جموں کے مسلمانو ں پر بھی حملے شروع ہوگئے تھے ۔مہاراجہ کے فوجی کے حملوں سے جموں کے مسلمان انتہائی خوف میں تھے ۔جموں کے مسلمانوں کی یہ صورتحال دیکھ کر پاکستان کے قبائل جموں و کشمیری کے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہنچے جس کی وجہ سے ایک سرحد کی پٹی پر کنٹرول حاصل ہوگیا ۔ اس ہی صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مہاراجہ نے جموں میں اعلان کیا کہ جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ جموں میں جمع ہو جائیں۔ چناچہ ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو پہلے گھروں سے نکالا گیا پھر اُن کا قتل عام کیا گیا ۔ جس میں لاکھوں مسلمان مردوں ، خواتین ، بچوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔
یکم جنوری 1948 کو بھارت مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا ۔ کشمیری اقوام عالم کے تعاون کا انتظار کرتے رہے لیکن کشمیری آزادی اور پاکستان کے ساتھ جڑے رہے ۔ 1965 کی جنگ میں راجوری پر پاکستان فوجیوں کی آمد پر جشن منانے والے مسلمانوں کی قبریں آج بھی گواہی دے رہی ہیںکشمیری کیا چاہتے ہیں ۔ 1989میں کشمیری مسلمانوں نے بھارت سے نجات حاصل کرنے کیلئے عسکری اور سیاسی تحریک کا آغاز کیاسیاسی تحریک کے بانی قائد سید علی گیلانی کا نعرہ ” ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے” جس کی گونچ فضائوں میں اب بھی موجود ہے ۔۔ اور سے آج تک لگ بھگ لاکھ کشمیریوں کی قربانیاں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں ،لہوں ہمارا بھلا نہ دینا۔
لیکن تب مہاراجہ کے مظالم تھے جبکہ اب نریندر مودی نے مہارجہ کی جگہ لی ہے ۔ مہاراجہ سے لیکر مودی تک کشمیری مسلمانوں پر مظالم جاری ہیں ۔لیکن کشمیری مسلمان نہ تھکے نہ بکے اب بھی جیلیں برداشت کر رہے ہیں ، گولیاں کھا رہے ہیں ۔کشمیری مسلمانوں کو لاپتہ کیا جارہے ۔اُن کی آواز کو دبایا جارہے ہیں ۔کشمیری مسلمانوں کو بے گھر کیا جارہا ہے ۔اُن کو آزادی کی بات کرنے پر ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ پر کشمیریوں کی آواز عالمی دنیا تک نہ پہنچے صحافیوں جیلوں میں قید ہیں اُن پر غداری کے مقدمات ہیں ۔خواتین جیلوں میں ہیں ۔ہندوتوا کی پشت پنائی سے وجود میں آنے والی بھارتی سرکار کشمیری کو دبا نہیں سکی ۔ انشاء اللہ جموں و کشمیر کے مسلمان تاحصول مقصد جدوجہد جاری رکھیں گے۔
کے ایس کشمیری