مضامین

( کانگریسی رہنماﺅں کے حربے اور مہاراجہ کا نام نہاد الحاق)

WhatsApp Image 2023-10-27 at 10.57.17 AM(پیرزادہ مدثر )
کانگریس نے برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے جموںوکشمیر کے سرسبز و شاداب اور آبی وسائل سے مالا مال خطے پر اپنی مکارانہ نظریں جما رکھی تھیں۔ کانگریسی رہنماﺅں کو جب یہ ادراک ہو گیا کہ پاکستان کے قیام کو روکنا اب ان کے بس میں نہیں تو انہوں نے کشمیر کے حسین خطے سے اُسے محروم کرنے کیلئے سازشوں کے جال بننا شروع کردیے۔ کانگریسی رہنماپاکستان کو ایک بے حد کمزور ملک کے طور پر وجود میں آتے دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انگریز کے ساتھ ساز باز کر کے پنجاب کے کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کروا لیے جو تقسیم برصغیر کے اصول کے تحت یقینی طورپر پاکستان کا حصہ بنناتھے۔ ان علاقوں کو ہڑپ کرنے کا مقصد جموں وکشمیر تک پہنچنے کیلئے زمینی راستہ ہموار کرنا تھا۔ برطانوی نوآبادیاتی تسلط سے بھارت کو آزاد ی دلانے والے پنڈٹ جواہر لال نہرواور سردارپٹیل جیسے شاطر کانگریسی رہنما بعد میں برطانوی سامراج سے بھی بڑے نوآبادی ذہنیت کے ثابت ہوئے ۔انہوں نے نہ صرف جموں وکشمیر کی واضح مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ جما لیا بلکہ جونا گڑھ اورحیدر آباد کی ریاستوں پر بھی فوج کشی کی۔ کانگریسی رہنماﺅںنے ایک طویل جدوجہد کے بعد برطانوی سامراج سے چھٹکارہ پایا تھا لہذانہیں کسی قوم کی خواہشات پامال کرنے اور اسکی آزادی چھننے کا خیال تک نہیں آنا چاہیے تھے لیکن کشمیر پر قبضہ کر کے انہوں نے اپنی مکروہ ذہنیت ، بے اصولی اور مکاری عیاں کری۔انہوں نے کشمیر پر فوج کشی کر کے نہ صرف کشمیریوں کو غلام بنا لیا بلکہ پاکستان کے ساتھ ایک مستقل کشیدگی کا راستہ ہموار کیا اور پورے خطے کاامن بھی داﺅ پر لگا دیا۔ پنڈت نہرو کشمیر کو ہتھیانے کی سازشوں میں تو پیش پیش تھا ہی ، موہن داس گاندھی اور سرپٹیل بھی اس حوالے سے انتہائی سر گرم رہے ۔ یہ سب اس وقت کے کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کو اپنے دام میں لانے کی بھر پور تک ودو میں لگے رہے۔ گاندھی نے یکم تا چار اگست 1947کو کشمیر کا دورہ کیا۔ انکا یہ دورہ دراصل مہاراجہ پر بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے دباﺅ بڑھانے کا ایک حربہ تھا۔ سردار پٹیل نے 3 جولائی 1947کو مہاراجہ ہری سنگھ اور ریاست جموںوکشمیر کے وزیر اعظم رام چندکاک کے نام ایک خط میں بڑے ہی شاطرانہ انداز سے لکھا کہ وہ ایک مخلص دوست اور جموںوکشمیر کے ایک اچھے خیر خواہ کے طور پر آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ ملنا سود مند رہے گا۔ غرض کانگریس کے یہ سارے رہنما مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے راضی کرنے کی بھر پور کوششوں میں لگے رہے ۔ کہا جاتاہے کہ وزیر اعظم رام چند کاک بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا حامی تھا لہذا پنڈت نہرو نے 17 جون 1947 کو گورنر جنرل ماﺅنٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کاک کو انکے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ۔ مہاتما گاندھی نے بھی یکم اگست 1947 کو اپنے دورہ کشمیر کے دوران مہاراجہ کے ساتھ ملاقات میں رام چند کو ہٹانے کی بات کی۔ چناچہ کاک کو گیارہ اگست 1947 کو برطرف کر دیا گیا ۔ ان کی جگہ مہر چند مہاجن کو جموںوکشمیر کا وزیر اعظم بنایا گیا جس نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے کانگریسی رہنماﺅں کے مذموم منصوبے کوعملی جامہ پہنایا ۔گاندھی، نہرو اور پٹل بالاخر اپنی مذموم سازش میں کامیاب ہو گئے ۔ مہاراجہ نے 26اکتوبر کو بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق رچا لیا، 27اکتوبر کو بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتری اور یوں کشمیریوں کے ابتلا کا ایک نیا دور شروع ہوا جو اپنے اندر بھارتی مکرو فریب اور ظلم و ستم کا ایک درد ناک باب سمیٹے ہوئے ہے۔
کشمیریوں کی اُ س وقت کی نمائندہ تنظیم آل جموںوکشمیر مسلم کانفرنس کے قائدین 14اگست 1947کو قیام پاکستان سے قبل ہی 19 جولائی 1947کو سرینگر میں ایک غیر معمولی اجلاس کے دوران ”الحاق پاکستان “ کی قرارداد پاس کر چکے تھے ۔ بھارت نے تقسیم برصغیر کے فارمولا اور کشمیری مسلمانوں کی خواہشات کو پامال کرتے ہوئے جب جموںوکشمیر پر چرھائی کی تو پاکستان کیلئے کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس ننگی بھارتی جارحیت سے لا تعلق رہ سکے۔پاکستان افرادی قوت، اسلحہ گولہ بارود اور ذرائع آمدورفت کی کمی کے باجود کشمیریوں کی مدد کو پہنچا۔پاکستان اور کشمیریوں کی بھر پور جدو جہد کے نتیجے میں جب بھارت کے ناجائز قدم اکھڑنے لگے اور اسے جموں وکشمیر ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا تو تو وہ کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ میں لے لیا۔اقوام متحدہ نے تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے کئی قراردادیں منظور کیں۔ جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا۔پاکستان اور بھارت دونوںنے یہ قرردادیں تسلیم کیں ۔ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سرینگر کے لالچوک میں یہ وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت فراہم کریں گے۔ لیکن76بر س گزر چکے ، بھارت کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو نہ صرف حق خود ارادیت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
کانگریس ہندو ﺅں کے بارے میں مشہور زمانہ مقولے ” بغل میں چھری، منہ میں رام رام“کا عملی نمونہ ثابت ہوئی۔ اس نے مکاری، دھوکہ دہی ، چالبازی اور فریب کاری کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر قبضے میں لے لیا ۔ پنڈت نہرو نے اپنے خاص دوست اور بھارتی آلہ کار شیخ عبداللہ کی سربراہی میں اکتوبر 1947میں کشمیر میں ایک ہنگامی حکومت قائم کرائی اوران کی حکمرانی کو جواز فراہم کرنے کیلئے 1951میں کشمیر میں فرا ڈالیکشن کرائے ۔ نہرو ایک طرف یہ وعدہ کرتا پھر رہا تھا کہ کشمیرمیں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی لیکن دوسری طرف ان انتخابات کو دنیا کے سامنے رائے شماری کے متبادل کے طور پر پیش کرتا رہا جس سے اسکی بے اصولی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اب میں بھارت کی اس نام نہاد سیاسی پارٹی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو پورے خطے میں ہندو تہذیب وتمدن کا غلبہ چاہتی ہے۔ یہ پارٹی بھی کانگریس کی طرح نوآبادیاتی اور توسیع پسندانہ ذہنیت تو رکھتی ہی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ ہندو ﺅں کے سوا کسی دوسری قوم خاص طورپر مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔”بھارتیہ جنتا پارٹی “ نام کی یہ تنظیم دراصل بدنام زمانہ ہندو دہشت گرد تنظیم ”راشٹریہ سوائم سیوک “کا سیاسی ونگ ہے۔ ہٹلر نے24فروری 1920کو نازی پارٹی تشکیل دی تھی جس کے صرف پانچ برس بعد 27ستمبر 1925کو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی۔ نریندر مودی آر ایس ایس کا رکن رہا ہے ۔ ہٹلر کی یہود مخالف مہم میں جس طرح سے لاکھوں یہودی قتل کیے گئے نریندر مودی نے بالکل یہی طریقہ اپنا رکھا ہے ، بطور وزیر اعلی گجرات اس نے2002میں ریاست میں ہزاروں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالے جبکہ بطور وزیر اعظم وہ اس وقت کشمیری مسلمانوں کی بے دریغ نسل کشی میں مصروف ہیں۔ آرایس ایس کا سیاسی ونگ بی جے پی بالکل وہی نظریہ رکھتی ہے جو نازی پارٹی کا رہا ہے۔ نازیوں کے بھی وہی اہداف تھے جو بی جے پی کے ہیں ، نازی یہودیوں کو مٹانا چاہتے تھے جبکہ بی جے پی والے مسلمانوں کے وجود کے در پے ہیں ۔ ہٹلر گریٹر جرمنی چاہتا تھا جب کہ مودی گریٹر یا اکھنڈ بھارت ۔
نریندر مودی کی مسلمان دشمنی اور انکے ساتھ نفرت کا اندازہ اسکی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جب ایک انٹرویو میںاس سے پوچھا گیا کہ کیا اسے گجرات میںمسلمانوںکے قتل عام پردکھ ہے تواسکا جواب تھاکہ” کارمیںسفر کے دوران اگر پہیہ کے نیچے کسی کتیا کا بچہ آجائے تو یہ تکلیف دہ تو ہو گا“۔ آر ایس ایس اور اسکا سیاساسی ونگ بی جے پی ہندوﺅں کے سوا دیگر نسلوں سے وابستہ لوگوں کے حق زندگی سے ہی انکاری ہیں۔یعنی جس انسان کا ہندو مذہب سے تعلق نہیں اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔انکا یہ خوفناک نظریہ اب ڈھکا چھپا نہیں رہا کیونکہ بھارت بھر میں اقلیتوں اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف جاری خونی کھیل نے اب اس نظریے کا پردہ چاک کر دیا ہے۔بی جے پی ، آر ایس ایس کو جموںوکشمیر کی مسلم شناخت سے کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔ یہاں جگہ جگہ موجودمساجد، درگاہوں، زیارتوں اور خانقاہوںنے انکا سکون غارت کر رکھا ہے لہذا وہ انہیں جلد از جلد مندروں میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ مودی حکومت نے 5اگست2019کومقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت چھیننے کے غیر قانونی اقدام کے بعد جس تیزی کے ساتھ بھارتی ہندوﺅں کو کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس فراہم کر کے انہیں مسلسل طور پر مقبوضہ علاقے میں آباد کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے اسکا مقصد ہی کشمیر میں مسلمانوںکی اکثریت ختم کر کے اسے قبل از اسلام کے عہد میں واپس دھکیل کر کفرستان میں تبدیل کرنا ہے۔ بی جے پی، آر آرایس نے جس طرح سے صدیوں پرانی بابری مسجد رام کی جائے پیدائش کا ڈھونگ رچا کر شہید کر ڈالی بالکل اسی طرز پر وہ کشمیرمیں مساجد ، درگاہوں اور خانقاہوں کو منہدم کر کے ان کی جگہ مندر بنانے کا مذموم منصوبہ رکھتی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی فسطائی حکومت نے فورسز کو کشمیری آزادی پسندوں کو چن چن کو شہید کر نے اور انہیں جیلوں اور عقوبت خانوں میں پہنچانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ وہ کشمیر میں صرف اور صرف اپنی من پسند سیاسی سرگرمیاں چاہتی ہے۔ اس نے تمام مزاحمتی رہنماﺅں اور کارکنوں سمیت زندگی کے ہرپیشے سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال رکھا ہے جو آزادی کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں۔ غرض کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے بی جے پی کے منصوبے انتہائی خطرناک ہیں۔ لیکن ہمیں قرآن پاک کی صورہ آل عمران کی اس آیت کو نہیں بولنا چاہیے کہ :” اور وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔“ کشمیری بھارتی سفاکیوں ، چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔ انکا جذبہ آزادی مستحکم و توانا ہے ۔ انہوں نے اپنی استقامت ، حوصلے اور صبر کے ذریعے ایک بڑی فوجی طاقت کو زچ کر رکھا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب ظالم بھارت رسوا ہو گا اور فتح کشمیریوں کے قدم چومے گی۔ (ان شا اللہ)

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button