بھارتی عدلیہ کا متعصبانہ فیصلہ: محمد شہباز
بھارتی سپریم کورٹ نے حسب سابقہ مودی کے خاکوں میں پھر ایکبار رنگ بھرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے11 دسمبر کوفیصلہ سناتے ہوئے بھارتی حکومت کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، آرٹیکل 370 ایک عارضی شق تھی۔بھارتی سپرپم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کی شمولیت کو منجمد نہیں کرتا، جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا۔درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 بحال کرنے کی استدعا کی تھی۔بھارتی سپریم کورٹ نے 20 سے زائد درخواستوں کی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔درخواستوں میں جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ رواں برس 5 ستمبر کو محفوظ کیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں پر 16 دن تک سماعت ہوئی اور یہ روزانہ کی بنیاد پر جاری رہی اور بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔اپنے محفوط فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا۔اسی فیصلے میں مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے 30 ستمبر 2024 تک الیکشن کرانے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔
بھارت نے05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی، مودی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان05 اگست 2019 میں کیا تھا،آرٹیکل370کے خاتمے کے ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں90 لاکھ لوگوں پر فوجی محاصرہ مسلط کرکے ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کیں۔2019 سے قبل ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت اور اختیارات حاصل تھے،جن کی موجودگی میں بھارت کا کوئی باشندہ نہ یہاں زمین یا کوئی دوسری جائیداد خرید سکتا تھا،یہی چیز مودی اور اس کے حواریوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتوں نے مودی حکومت کے اس فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا،مگر انہیں ہمیشہ کی طرح مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔جس پر سید صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ ہندو توا بھارتی عدلیہ کاآرٹیکل 370 اور 35Aکے حوالے سے فیصلہ بھارت نواز جماعتوں کیلئے چشم کشا ہے اوریہ فیصلہ حریت پسند کشمیری عوام اور آزادی پسند تنظیموں کیلئے کوئی اہمیت اور معنی نہیں رکھتا کیونکہ اہل کشمیر جابرانہ بھارتی قبضے کے خلاف ایک تاریخ ساز جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی ہندتوا عدالت نے بے گناہ اور معصوم ڈاکٹر افضل گورو کو بھارتی عوام کے اجتماعی ضمیرکو تسکین پہنچانے کیلئے سزا موت دی۔اسی طرح 2010میں مذکورہ ہندوتوا عدالت سے معصوم کشمیری بچوں،بزرگوں اور خواتین پر پیلٹ حملوں کو قانونی اور جائز قرار دلوانا کشمیری عوام بھولے نہیں ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی توثیق کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے مودی حکومت کی حمایت کر نا اپنا قانونی فریضہ سمجھتی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 370 کی توثیق کرکے ثابت کیا ہے کہ وہRSS-BJP کے زیر اثر کام کر رہی ہے جبکہ مودی کی جانب سے 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اقدامات کو برقرار رکھنا بھارت میں تابع فرمان عدلیہ کی ایک اور مثال ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق غیر قانونی خاتمے کی توثیق کرکے کشمیری عوام کے آئینی حقوق پر ایک ایسا ڈاکہ ڈالا ہے،جس کی تلافی صدیوں تک ممکن نہیں ہوگی۔آرٹیکل 370 کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے پھر ایکبار ثابت کیا ہے کہ اعلی عدلیہ سمیت تمام بھارتی ادارے ہندوتوا لائن پرگامزن ہیں۔ فسطائیRSS کا تربیت یافتہ جنونی مودی، مقبوضہ جموں وکشمیر کی منفرد شناخت اور اس کے مسلم تشخص کو ہر حال میں ختم کرنے کا مذموم منصوبہ رکھتا ہے۔مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 میں غیر آئینی اقدام کا مقصد کشمیری عوام کی منفرد شناخت اور ثقافت کو چھیننا تھا۔کشمیری عوام کیلئے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو تسلیم کرنا اپنی منفرد شناخت کھونے کے مترادف ہے۔بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیری عوام کی عزت اور شناخت ہی چھین لی ہے۔2014 میں فاشسٹ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارتی عدلیہ بھی زعفرانی رنگ میں رنگ چکی ہے۔آرٹیکل 370 کی غیر قانونی تنسیخ سے متعلق 5 اگست 2019 میں مودی کے اقدامات کی بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق انصاف کا قتل اور دھوکہ دہی پر مبنی فیصلہ بھارتی عدلیہ کا ایک اور مظہر ہے۔بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں سے متعلق مقدمات کے فیصلوں کا اعلان کرتے وقت بھارتی عدلیہ ہمیشہ ہندوتوا نظریے کو ترجیح دے رہی ہے۔فاشسٹ مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔دراصلRSS اورBJP مقبوضہ جموں و کشمیرمیں ہندو تہذیب کا دوبارہ احیاء چاہتی ہیں۔اسی لیے 4200000لاکھ سے زائد غیر ریاستی باشندوں جو کہ بھارتی ہیں 05اگست 2019 سے لیکر اب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈو میسائل فراہم کیا جاچکاہے ۔حال ہی میں کشمیری پنڈتوں کیلئے دو اور آزاد کشمیرسے واپس آنے والے لوگوں کیلئے ایک اسمبلی سیٹ مختص کرنا بھی ایک واضح اشارہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی اسمبلی میں مسلم نمائندگی کو محدود رکھا جائے ،تاکہ اپنے غیر قانونی اقدامات کی توثیق کرائی جائے ۔اس کے علاوہ یہاں آئے روز نت نئے قوانین کا نفاذ اور اطلاق اس بات کی جانب واضح اشارے ہیں کہ مودی اور اس کے حواری مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا گل کھلانا چاہتے ہیں۔البتہ اہل کشمیر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی، اپنی منفرد شناخت کے تحفظ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مسلسل مطالبہ کرتے ہیں اور اس مطالبے کیلئے آج تک سوا پانچ لاکھ کشمیری اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں جبکہ آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔یقینااپنی منفرد شناخت کا تحفظ کشمیری عوام کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے،جس پر نہ ماضی میں کوئی سمجھوتہ کیا جاسکا اور نہ ہی مستقبل میں اس پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول ہوگا۔بھارت 5 اگست 2019 جیسے غیر آئینی اقدامات سے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا ۔بھارتی حکمرانوں کو کشمیری عوام کا مطالبہ سننا چاہیے کہ وہ 5 اگست 2019 کو چھینے گئے ان کے حقوق واپس کردیں۔دنیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی، کشمیری عوام کی شناخت برقرار رکھنے اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے بھارت پردباوڈالنا چاہیے۔انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن کشمیری عوام کے حقوق کیلئے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
پاکستان نے بھارت کے 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اقدامات کی عدالتی توثیق کو انصاف کا جنازہ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ بھارت کو کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف متنازعہ جموں و کشمیر کی حیثیت پر یکطرفہ فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا آرٹیکل 370 پرفیصلہ مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرنے میں ناکامی ہے۔جب سے مودی بھارتی وزیراعظم بنے ہیں، بھگوا داری نے بھارتی عدلیہ سمیت بھارت کے تمام اداروں کواپنے تابع فرمان بنایا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیرمیں مسلمانوں سے متعلق معاملات میں بار بار اپنی حکومتوں کا ساتھ دیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قانون اور انصاف کے تمام اصولوں کو نظرانداز کردیا۔مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا مقصد اہل کشمیر کو ان کے حقوق سے محروم کرنا تھا۔بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر منسوخ کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی تھی۔آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی کی بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق مقبوضہ جموں و کشمیرمیں مجموعی اورمنظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بین الاقوامی برادری کی توجہ نہیں ہٹائی جاسکتی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی توثیق مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔کیونکہ مسئلہ کشمیران دو شقوں یا آرٹیکلز کا مرہون منت نہیں ہے بلکہ یہ شقیں صرف مقبوضہ جموں و کشمیر اور کشمیری عوام کو ایک جدا گانہ حیثیت اور شناخت کیلئے بھارتی آئین میں خصوصی طور پر بھارتی حکمرانوں کی خواہش اور رضا مندی سے درج اور شامل کی گئی تھیں۔اہل کشمیر بجا طور پر ان شقوں کی بحالی کی خواہش رکھتی ہیں تاکہ ان کی زمنیوں اور جائیداد و املاک پر کوئی غیر ریاستی باشندہ قابض نہ ہوسکے جیسے کہ اہل فلسطین کو صہیونی اسرائیلوں کے ہاتھوں اپنی ہی زمینوں سے محروم ہونا پڑا اور آج نہ صرف ان کی زمینوں پرصہیونی اسرائیلی قابض ہوچکے ہیں بلکہ آج ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔مودی اور اس کے حواری بھی اہل کشمیر کے ساتھ یہی سلوک کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے کبھی اپنی پار لیمنٹ تو کبھی اپنی عدلیہ کا کندھا استعمال کرکے اپنے ساتھ ساتھ ان اداروں کو بھی داغدار بناررہے ہیں اور یہ ادارے باالخصوص بھارتی سپریم کورٹ کے جج دھڑلے سے اپنے لیے رسوائی اور ذلت کا انتخاب کرکے تاریخ میں ڈوب مرنا پسند کرتے ہیں۔