مقبوضہ جموں وکشمیر میں پاکستانی نژاد کشمیری خواتین کا سفری دستاویزات کی فراہمی کا مطالبہ
سرینگر 06 مارچ (کے ایم ایس) غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ایک گروپ نے جو اپنے شوہروں( سابق کشمیری مجاہدین) کے ساتھ علاقے میں آئی ہیں، بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے وطن واپسی کے لیے سفری دستاویزات فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔
44سالہ سائرہ جاوید نے سرینگر میں ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ پندرہ سال قبل میں اپنے شوہر کے ساتھ کشمیر آئی تھی۔ لیکن میں یہاں پھنس کر رہ گئی ہوں۔ پاکستان واپسی کی میری تمام کوششوں کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کراچی میں پیدا ہونے والی پاکستانی خاتون سائرہ نے سال 2001 میں ایک سابق مجاہد جاوید احمد ڈار سے شادی کی۔ 2007 میں جاوید احمد ڈار اپنی اہلیہ کے ساتھ کشمیر واپس گئے۔سائرہ اس وقت شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں اپنے شوہرجاوید ڈار اور چار بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں یہاں اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ہوں لیکن چونکہ میں شہریت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوں اس لیے ہر سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔مجھے اپنے بچوں کا مستقبل تاریک لگتا ہے۔انہوں نے کہاکہ وہ بحالی کی پالیسی سے تین سال قبل دستاویزات کے ساتھ 2007 میں واہگہ بارڈر کے راستے بھارت پہنچی تھی۔انہوں نے کہاکہ جب سے وہ کشمیر میں پھنسی ہوئی ہیں، کراچی میںان کے خاندان کے آٹھ افراد فوت ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے اپنے والد، اپنے چھوٹے بھائی اور دیگر رشتہ داروں کو کھو دیا۔ میں کشمیر میں پھنسی رہی اور انہیں آخری بار نہیں دیکھ سکی۔سائرہ کو اپنے شوہر کے ساتھ 2007 میں بھارت میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں تین ماہ تک قید میں رہے اور ان کے دستاویزات ضبط کر لیے گئے جس کے بعدجاوید کو بے وطن شہری قرار دیا گیا۔2010 میں جب کشمیر میں کشمیری مجاہدین کے لیے بحالی کی پالیسی کا اعلان کیا گیا تو الطاف احمد بٹ نے اپنی پاکستانی بیوی بشریٰ کے ساتھ کشمیر واپس آنے کا فیصلہ کیا۔2012 میں بشریٰ اپنے شوہر کے ہمراہ کشمیر آئی لیکن اس کے بعد وہ پاکستان واپس نہ جاسکی۔انہوں نے صحافیوں کو بتایاکہ میں واپسی کے لیے بہت کوشش کررہی ہوںلیکن بدقسمتی سے کوئی بھی میرے مسائل سننے کے لئے تیار نہیںہے۔انہوں نے کہاکہ ان تمام سالوں میں،میں کشمیر لانے پر اپنے شوہر سے لڑتی رہی ۔انہوں نے کہاکہ روز کے جھگڑے بالآخر سال 2019 میں طلاق کے ساتھ ختم ہوئے۔بشریٰ کپواڑہ میں اکیلی رہتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی تحویل بھی کھو چکی ہے اور روزی روٹی کے لئے شدید مشکلات کا شکارہے۔ 31 سالہ خاتون جو اس وقت پٹن میں مقیم ہیں، پوچھتی ہیں کہ پاکستانی بیویوں کو کس گناہ کی سزا مل رہی ہے؟اسی طرح ایک اور پاکستانی خاتون عنبرین رحمان اپنے شوہر عبدالمجید آہنگر کے ہمراہ کشمیر آئی تھیں۔ کپواڑہ کے علاقے درگمولہ میں رہنے والی عنبرین نے کہاکہ میں2013 میں اپنے شوہر کے ساتھ کشمیر آئی تھی۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ میں کشمیر میں پھنس جاو¿ں گا۔ صرف 20 دن پہلے پاکستان میںمیری والدہ فوت ہوئیں اور میں ان کے جنازے میں شرکت نہیں کر سکی۔انہوں نے کہاکہ حکومت ہمیں شہریت دینے سے انکار کر کے ہمارے بچوں کے مستقبل کو تاریک بنارہی ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یا تو ہمیں شہریت دیں یا ہمیں پاکستان واپس بھیج دیں۔