مقبوضہ جموں وکشمیر اہل کشمیر کیلئے ایک جہنم
محمدشہباز
مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی پسند رہنماوں،کارکنوں اور دوسرے نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کر کے ان کیلئے سیاسی میدان میں کوئی جگہ دینے سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔حتی کہ صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عام کشمیریوں کو بھی جدوجہد آزادی میں ان کے غیر متزلزل عزم کو توڑنے کیلئے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔مودی حکومت 5اگست 2019 سے اب تک ہزاروں کشمیریوں کوجرم بیگناہی کی پاداش میں گرفتار کرکے انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی دور دراز جیلوں میں منتقل کرچکی ہے۔بھارت اپنے سیاسی نظریات پر سختی سے کار بند رہنے والے کشمیریوں کی غیر قانونی نظربندی کو طول دے رہا ہے۔مودی حکومت جان بوجھ کر کشمیری نظر بندوں کو مقبوضہ جموں وکشمیرسے سینکڑوں میل دور بھارتی جیلوں میں منتقل کر رہی ہے تاکہ ایک تو کشمیری عوام پر تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار ہونے کیلئے دبا وڈالا جا سکے ،دوسرا نظر بندوں کے خاندانوں کیلئے مسائل پیدا کیے جا سکیں،کیونکہ لواحقین کیلئے سینکڑوں میل دور اپنے پیاروں سے ملنے جانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔حالانکہ نظر بندوں سے متعلق مقبوضہ جموں وکشمیر کی ہائیکورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کشمیری نظربندوں کو اپنے گھروں کی نزدیکی جیلوں میں رکھا جائے تاکہ ان کے گھروالے ان سے آسانی سے مل سکیں،لیکن مودی حکومت کسی آئین و قانون کی پابند نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کشمیری بھارت کی دور دراز جیلوں میں مقید کیے گئے ہیں اور انہیں تمام بنیادی اور طبی سہولیات سے محروم کیا جاچکا ہے۔اس کے علاوہ کشمیری نظر بندوں کو عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا ہے۔جبکہ بیشتر نظر بند مختلف عوارض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ قربانیوں کا مجسمہ جناب محمد اشرف خان صحرائی،غلام محمد بٹ اور الطاف احمدشاہ بھارتی جیلوں میں بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث بھارتی بربریت اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔بھارت اہل کشمیر کو آزادی کے حصول پر پختہ عزم سے کار بند رہنے کی پاداش میں سزا دینے کیلئے جبر کے تمام حربے اپنا رہا ہے۔پبلک سیفٹی ایکٹPSA اورUAPA جیسے بدنام زمانہ قوانین کا کشمیری عوام کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انہیں بھارت کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
بھارت اور اس کے حواری کشمیری عوام اور اہل کشمیر کی قیادت کرنے والے رہنمائوں کیلئے تمام اصول و ضوابط اور آئین وقانون کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اہل کشمیر گزشتہ 76برسوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجوداپنے بنیادی سیاسی مستقبل سے محروم کیے جاچکے ہیںان 76برسوں میں اہل کشمیر نہ جانے خون کے کتنے دریاعبور کرچکے ہیں۔بھارت کہنے کو تو ایک جمہوری ملک ہے ا ور بھارت دعوی بھی کرتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن اگر کسی نے بھارتی جمہوریت اور جمہوری رویوں کا جنازہ دیکھنا ہو تو مقبوضہ جموںو کشمیر اس کی بہترین مثال ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے۔اہل کشمیر نہ تو اپنی مرضی سے جی سکتے ہیں اور نہ ہی وہ نقل وحرکت کرسکتے ہیں۔یہاں دس لاکھ بھارتی درندے تعینات ہیں جو بظاہر ہیں تو انسان لیکن یہ حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ان انسان نما درندوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو اس کے باشندوں کیلئے دنیا کی ایک کھلی جیل کے ساتھ ساتھ ایک جہنم میں تبدیل کیا ہے۔ پوری آزادی پسند قیادت بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہے۔کشمیری قیادت کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے بجائے بھارتی جیلوں میں عادی مجرموں کے ساتھ رکھا گیا ہے تاکہ یہ عادی مجرم ان پر حملہ آور ہوجائیں اور آج تک کشمیری قیادت کئی بار ان عادی مجرموں کی جانب سے حملوں کا نشانہ بھی بن چکی ہے۔05 اگست 2019 کے بعد مودی اور اس کے حواریوں بالخصوص امیت شاہ اور راجناتھ سنگھ کشمیری عوام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوچکے ہیں۔یہ انہی تینوں کی کارستانی کا نتیجہ ہے کہ سب سے پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی اہل کشمیر پر فوجی محاصرہ مسلط کیا گیا۔یہاں کی معیشت کا مکمل جنازہ نکالا گیا،کشمیری عوام کو سڑکوں پر لابٹھایا گیا۔لاکھوں کشمیری روز گار سے محروم ہونے کے علاہ اپنے کاروبار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔کشمیری عوام کے وسائل پر قبضے کو اور زیادہ مظبوط کیاگیا ۔جس بجلی کی پیداوار مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین سے ہے اسی بجلی کی فراہمی کیلئے یہاں کے عوام کو ترسایا جاتا ہے اور تو اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی سے بھارتی شہر روشن ہیں اور خودمقبوضہ جموںو کشمیرتاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔یہاں پہلے ڈیجیٹل میٹر نصب کیے گئے تاکہ کشمیری عوام کی رگو ں سے رہا سہا خون نچوڑا جائے۔جب اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اب سمارٹ میٹرنصب کرنے کا کام شد ومد سے جاری ہے۔پورا مقبوضہ جموںو کشمیر سمارٹ میٹر نصب کرنے کے خلاف سراپا احتجاج ہے مگر مودی اور اس کے حواری ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں،حالانکہ صوبہ جموںجہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے،سمارٹ میٹروں کی تنصیب کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں پیش پیش ہے۔مودی اور اس کے قبیل کے دوسرے لوگ اہل کشمیر کا گلہ طاقت کی بنیاد پر دبانے کو امن کا نام دیتے ہیں۔کس قدر بے شرم ہیں یہ لوگ جو ایک پوری قوم کی جداگانہ شناخت،ثقافت،ان کی طرز معاشرت اور بود وباش کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور اس سے اپنی بڑی کامیابی گرداننے میںدنیا بھر کے قلابے ملاتے ہیں مگر 13 ستمبر بروز بدھ جنوبی کشمیر کے گڈول کوکر ناگ اسلام آباد میں صرف ایک حملے نے مودی اور اس کے سانڈ نما وزیر داخلہ امیت شاہ کی چیخیں نکال دی ہیں جس میں 19راشٹریہ رائفلز کا کمانڈنگ آفیسر کرنل منپریت سنگھ،کمپنی کمانڈر میجر اشیش دھنچوک ،ٹاسک فورس کے ڈی ایس پی ہمایوں مزمل بٹ سمیت سات بھارتی فوجی ہلاک اور کئی دوسرے زخمی ہوگئے۔اول الذکر تینوں بھارتی فوجی اور پولیس آفیسران کی لاشیں چھ گھنٹوں تک جائے وقع پر پڑی رہیں مگر بھارتی فوجیوں کو انہیں اٹھانے کی ہمت نہ پڑی۔جس پر ایک بنگلہ دیشی روز نامہ The Sun نے بڑا ہی معنی خیز تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے گڈول کوکر ناگ میں کشمیری آزادی پسندوں کے سامنے ہتھیار دال دیئے۔بھارتی فوجیوں نے اپنے آفیسران کو تنہا آزادی پسندوں کے سامنے لاکھڑا کیا اور یوں بھارتی فوجی آفیسران بے بسی کی موت مارے گئے۔پورا ایک ہفتہ گڈول کوکر ناگ میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بھارتی فوجیوں کو ہزیمت سے دوچار ہونا پڑاحالانکہ وہ نہ صرف گن شپ ہیلی کاپٹروں بلکہ مارٹر گنوں کے علاوہ اسرائیلی ساخت ڈرون طیاروںسے لیس تھے ۔مگر وہ کیا خوب ضرب المثل ہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے لڑی جاتی ہیں جس سے بھارتی افواج مکمل طور پر محروم ہے۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نظر بندوں کے حقوق سے متعلق جنیوا کنونشن کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کر رہا ہے۔ہزاروں کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر نظر بند کرنے پر مودی حکومت کو سخت سزا ملنی چاہیے۔عالمی برادری کو غیر قانونی طور پر نظر بند ہزاروں کشمیریوں کی رہائی کیلئے آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بھارت بطاہرایک سیکولر ملک ہے مگر بھارت کی جدید تاریخ میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر اقلیتوں کے خلاف تشدد ایک باقاعدہ تاریخ رہی ہے۔ ہندو قوم پرستی کا عروج، خاص طور پر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی BJPنے ایک ایسے سیاسی ماحول کو فروغ دیا جو نفرت انگیز ی سے پر ہے۔ بھارت میں1984 میں سکھ مخالف قتل عام اور 2008 میں ریاست اڑیسہ میں عیسائی مخالف فسادات۔ ہندو قوم پرست رہنماوں کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر کی جیتی جاگتی مثالیںہیں جس میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما پیش پیش ہیں۔ بھارت میں ہر سال فرقہ وارانہ تشدد کے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے 2016 سے 2019 تک بھارت میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کی 4,500 سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے۔
بھارت میں آج تک ساٹھ ہزار کے قریب مسلم کش فسادات کیے جاچکے ہیں۔ 2002 میں گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا تہیہ تیغ کیا گیا۔06 دسمبر1992 میں بابری مسجد کی شہادت اور دہلی میں سینکڑوں مسلمانوں کا قتل کون بھول سکتا ہے۔متنازعہ قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا بی جے پی کا اصل ہدف ہے۔ 23 فروری2020 میںدہلی مسلم کش فسادات چند ایک واضح مثالیں ہیں۔2014 میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں اشتعال انگیز، نفرت آمیز اور دھمکی آمیز تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
ریاستی سرپرستی میں ہندوتوا لیڈر کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز جرائم کو ہوا دیتے ہیں۔بھارتی ریاستوں خاص کر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو محدود کرنے کے قوانین منظور کیے ہیں۔جن میں اتر پردیش اور کرناٹک سرفہرست ہیں گوکہ کرناٹک میں بی جے پی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ،مگر اتر پردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف بدترین مظالم متعارف کرائے ہیں ،جن میں مسلمانوں کی جائیداد و املاک کو دن دہاڑے بلڈوزروں سے تباہ کرنا سب سے خطرناک ہے۔مودی حکومت بھارت میں ہندو بالادستی کو فروغ دے رہی ہے۔ہندوتوا لیڈر کھلے عام قتل عام اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال کا مطالبہ کر رہے ہیں۔مگر نہ تو ان ہندتوا دہشت گردوں کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی ہے اور نہ ہی FIRکا اندراج ہوتا ہے۔اب تو بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی لیڈر رمیش بیدھووری نے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ دانش علی کے خلاف شرمناک زبان استعمال کی۔ مودی کی فسطائی پالیسیاں ہٹلر کی یاد دلا رہی ہیں۔انسانی حقوق کے ماہرین خاص کر جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر سٹنٹن گگوری نے مقبوضہ جموںو کشمیراور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہاہے کہ دونوں مقامات نسل کشی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔مودی حکومت کا انتہا پسندانہ ایجنڈا جنوبی ایشیائی خطے میں امن کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔فسطائی مودی حکومت بھارت اور مقبوضہ جموںو کشمیرمیں مسلمانوں کی بنیادی آزادیوں کو پامال کر رہی ہے۔لہذادنیا کوبھارت اور مقبوضہ جموںو کشمیرمیں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔