مضامین

اب تو جامع مسجد دہلی کے شاہی امام بھی بول پڑے ہیں

محمد شہباز

بھارت میں2014 سے بر سر اقتدار مودی اور بی جے پی نے بھارتی مسلمانوں کی نسلی تطہیر کرنے کی قسم کھالی ہے اور وہ اپنے اس منصوبے کوپائیہ تکمیل تک پہنچانے کی سر دھڑ کی بازی لگانے میں مصروف عمل ہے۔2014 سے اب تک بیسیوں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا جاچکا ہے ،مسلمانوں کے گھروں،دکانوں ،مدرسوں،خانقاہوں اور قبرستانوں کو دن دیہاڑے بلڈوزروں سے مسمار کیا جارہا ہے۔یہ صورتحال جہاں پریشان کن ہے وہیں اس درندگی اور بربریت پر بھارتی مسلمانوں کی اکثریت ابھی بھی خاموش اپنے لب کھولنے سے قاصر ہیں۔لیکن مودی کی اس مسلم کش پالیسی نے اب جامع مسجد دہلی کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری کو اپنے سینے میں موجود لاوا باہر لانے پر مجبور کیا ہے۔30 اگست کو جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید احمد بخاری پھٹ پڑے ہیں اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا،جس کا وہ طویل عرصے سے نہ صرف اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بلکہ دوسروں سے سن بھی رہے تھے۔مولانا سید احمد بخاری نے بھارت میں نفرت کی فضا اور اقلیت دشمن بالخصوص مسلم مخالف اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقسیم برصغیر کے بعد بھارت میں اس طرح کی نفرت پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اپنے اہم خطاب میں کہا کہ بھارت میں بے شمار مسلم کش فسادات ہوئے لیکن اس کے باوجود اس طرح نفرت کا زہر نہیں پھیلا ۔ اپنے خطاب میں سید احمد بخاری نے بھارت کو اندھیرے کی جانب گامزن قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج وہ اس بھارت کو تلاش کررہے ہیں جس کاخواب ان کے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ شاہی امام نے کہا کہ یہ ہندو اور مسلمان کا سوال نہیں ۔ انہوں نے سوال بھی کیا کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اقلیت کا ہرکام جرم بن گیا اور اکثریت کاغلط بھی صحیح ہوگیا؟شاہی امام نے بھارت میں موجودہ وقت کو انتہائی صبر آزما قراردیتے ہوئے کہا کہ مسلمانان ہند بھارت کی سب سے بڑی وحدت ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد جس طرح آج منافرت کا بازار گرم ہے، اس سے پہلے کبھی ایساد یکھنے کو نہیں ملا۔حالانکہ بھارت میں بھیا نک مسلم کش فسادات اور قتل و غارت گری ہوئی، نہتے نمازیوں پر گولیاں چلیں ، لاتعداد مسلمانوں کو زندہ زمین میں دفنا کر ان پر ٹریکٹر چلا کر گوبھی کی فصل اگائی گئی، ہزاروں سکھوں کا قتل عام ہوا، لاکھوں معصوم جانیں تقسیم وطن کی نذر ہوئیں۔ مگر نفرت کا زہراس سطح تک نہیں پھیلا تھا،جو آج کے بھارت میں پھلا ہوا ہے۔اپنے 45 منٹ کے طویل خطاب میں مولانا سید احمد بخاری نے یہ بھی کہاکہ آسام میں نیلی کے مقام پر گائوں سے مسلمان کھدیڑ دیے گئے۔ ہزار سے زائد مسلمانوں کا یک طرفہ قتل ہوا، مگر آج آسام میں جس طرح نفرت پھیلائی گئی اور پھیلائی جارہی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
جامع مسجد دہلی کے شاہی امام سے دو روز قبل بھارت کے ایک اور نامور اور معروف عالم دین مولانا توقیر رضاخان نے بھی کھل کر بدنام زمانہ RSS کو مسلمانوں کی بدترین دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مودی بھارت میں امن چاہتے ہیں تو دہشت گرد تنظیم RSS پر پابندی ناگزیر ہے ،RSS پر پابندی عائد نہ کرنا مسلمانوں کیساتھ مودی کی دشمنی تصور کی جائے گی کیونکہ RSS کی ایما پر ہی مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ مولانا توقیر رضا نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بجرنگ دل اور وشواہندوپریشد "وی ایچ پی "سمیت دائیں بازو کی دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہ کہا مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ وشواہندوپریشد، بجرنگ دل بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں اور ان پر بھی پابندی لگنی چاہئے۔
خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا ہے کے مصداق اب بھارت کے ان مسلم رہنمائوں کی جانب سے مودی اور بی جے پی کی مسلم دشمنی کے خلاف پوری شدت کیساتھ آواز بلند ہورہی ہے جو بظاہر اعتدال پسند اور بی جے پی کی مسلم دشمن کاروائیوں ،مسلمانوں کی ماب لیچنگ اور ان کی جائیدادو املاک کی تباہی و بربادی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔خاص کر مولانا سید احمد بخاری کو اپنے لب کھولنے میں پورے دس برس لگ چکے ہیں،یعنی جب پانی سر کے اوپر سے چلا گیا تو انہیں محسوس ہوا کہ کچھ تو گڑھ بڑھ ہے ،جس پر اب مزید خاموش رہنا گناہ بے لذت ہوگا،لہذا ان کے بیان نے پورے بھارت کی فضاء میں ایک ارتعاش پیدا کیا ہے،خاصکر ان کا یہ جملہ کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ بھارت میں اقلیت کا ہرکام جرم بن گیا اور اکثریت کاغلط بھی صحیح ہوگیا؟نے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی ہے اور پورا بھارت اس کیفیت میں مبتلا ہوگیا۔بلاشبہ جامع مسجد دہلی کو بھارتی مسلمانوں میں ایک مرکزی مقام اور حیثیت حاصل ہے اور یہاں سے بولا جانے والا ایک ایک جملہ اپنے اندر معنی کا سمندر لیے ہوتا ہے۔گوکہ جامع مسجد کے منتظمین جن میں بخاری خاندان پیش پیش ہے ،شاذ و نادر ہی سیاسی صورتحال اور بھارتی مسلمانوں کو درپیش مشکلات و مصائب پر لب کشائی کرتے ہیں لیکن اب جبکہ بھارتی مسلمانوں کو مودی کے دور اقتدار میں مکمل طور پر دیوار کیساتھ لگایا گیا ہے ،انہیں شہریت سے محروم کیا جارہا ہے۔جس کی مثال حالیہ دنوں میں بھارتی ریاست آسام میں 36 مسلمانوں کی ایک ٹربیونل سے ان کی متنازعہ شہریت ترمیمی بل کے ذریعے شہریت کی منسوخی اور انہیں فوری طور پر حراستی کیمپ منتقل کرنا بھارتی مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ایک خوفناک صورتحال کی طرف دھکیلنا ہے ،جبکہ بھارت کی دوسری ریاستوں،جن میں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں، میں بھی آسام جیسی کاروائیوں کیلئے زمین ہموار کی جارہی ہے اور بھارتی مسلمانوں کی قیادت نے مسلک،ذات برادری اور گروہی عصبیت سے اوپر اٹھ کر اگر صورتحال کا ادراک نہیں کیا تو پھر نہ جانے انہیں کن خوفناک اور تاریک راہوں کا سامنا کرنا پڑے گا ،جن میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ان کی نسلیں اسی طرح کاٹنے کی تیاری ہورہی ہے جس طرح آج اسرائیل فلسطین میں کاٹ رہا ہے۔وقت بہت تیزی کیساتھ گزر رہا ہے ۔تدبر و تفکر از حد ضروری ہے ۔اگر مولانا سید احمد بخاری جیسے معتدل مزاج رہنما بھارتی مسلمانوں کو درپیش صورتحال پر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں تو جن پر گرزتی ہے ،ان کاکیاحال ہوگا۔ان کا تو کلیجہ پھٹ رہا ہے۔کبھی گائے لے جانے کے الزام میں مسلمانوں کا قتل کیا جاتا ہے ،تو کبھی ان کے گھروں کو دن دیہاڑے بلڈوزروں سے مسمار کیا جاتا ہے۔مسلم نوجوانوں کو جھوٹی ایف آئی آرز میں گرفتار کرکے نہ صرف انہیں جیلوں کے اندر سڑایا جاتا ہے بلکہ ان کا مستقبل بھی برباد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔اس تمام تر صورتحال کے پیچھے آر ایس ایس کی کارستانی کا ہاتھ ہے ،جس کی کوکھ سے ہی بی جے پی جنم لے چکی ہے ۔جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ بھارتی ممبران پارلیمنٹ مسلمانوں کو بھارت سے نکالنے اور انہیں سبق سکھانے کے دھمکی آمیز بیانات کھلے عام دیتے رہتے ہیں ،جن میں اکثریت بی جے پی اور آر ایس ایس کیساتھ وابستہ ہے لیکن بھارت کا آئین و قانون اس ساری صورتحال پر خاموش ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی،لہذا ان جاں گسل حالات میں وہ فریاد کریں تو کسی سے کریں۔
بھارتی مسلمانوں کیلئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ خود کو موجودہ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں یا پھر مزاحمت کا اولعزم راستہ اختیار کریں،مجودہ حالات کے رحم و کرم پر خود کو چھوڑنا موت اور تباہی ہے ،جس کا مشاہدہ وہ 2014 سے پہلے بھی 2002 میں گجرات میں بخوبی کرچکے ہیں جب فسطائی مودی گجرات کی وزارت اعلی کی کرسی پر براجمان تھے اور ڈھائی سے تین ہزار مسلمانوں کا آنا فانا تہ تیغ کیا گیا اور بھارتی قانون کو ذرا سی جنبش نہیں آئی کہ مودی سے ان تین ہزار معصوم بھارتی مسلمانوں کے قتل عام پر پوچھ گچھ ہی کرلیتا۔ بلکہ الٹا مودی اور اس کیساتھ قتل عام میں ملوث دوسرے مجرموں کو بچ نکلنے کا بڑا آسان راستہ فراہم کیا گیا۔حالانکہ گجرات قتل عام کے وقت انجہانی اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیر اعظم تھے اور انہوں نے اگر مگر کے چکروں میں پڑے بغیر گجرات قتل عام پر اپنے نشری خطاب میں اس سے بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا تھا اور کئی برسوں بعد بھارت کے سابق وزیر خارجہ اور واجپائی کی کابینہ میں وزیر رہنے والے یشونت سہنا نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ واجپائی مودی کو گجرات کی وزارت اعلی سے برطرف کرنا چاہتے تھے لیکن اس سے ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔بھارتی مسلمانوں کیلئے موجودہ صوتحال ابھی نہیں تو کبھی نہیں کی نہج پر پہنچ چکی ہے ،فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ انہیں بھیڑ بکریو ں کی طرح ذبح ہونا ہے یا مسلمانوں کی مزاحمت کی جو میراث ہے ،اس سے اختیار کرنا ہے۔آج نہیں تو کل یہ معرکہ لڑنا ہی لڑنا ہے۔کیونکہ نسل کشی سے متعلق عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر گیگوری سٹنٹن خبر دار کرچکے ہیں کہ بھارت کیساتھ ساتھ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی دورازے پر دستک دے چکی ہے لہذا بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کیلئے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔گیگوری سٹنٹن مزید کہتے ہیں کہ بوسینا ہرزیگوینا میں بھی نسل کشی سے پہلے اسی طرح کے حالات پیدا کیے گئے جیسے بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا کیے جاچکے ہیں۔جبکہ جرمنی میں گیس چیمبروں میں لوگوں کو ڈال کر ان کا قتل عام کیا گیا ۔بھارت بھی بڑی سرعت کیساتھ اسی صورتحال کی جانب گامزن ہے۔جس کے واقعات آئے روز بھارت میں رونما ہورہے ہیں۔نہ صرف نوجوانوں بلکہ ستر اور اسی سالہ بزرگوں کو ہندو انتہاپسند تشدد کا نشانہ بناتے وقت ان کی ویڈیوز بناکر خود ہی سوشل میڈیا پر وائرل بھی کرتے ہیں۔تاکہ بھارتی مسلمانوں کو ڈر اور خوف میں مبتلا کیا جائے۔کیونکہ ہندو انتہا پسند جانتے ہیں کہ مودی کے بھارت میں قانون ان کا پیچھا نہیں کرسکتا اور یہ کہ اس ساری صورتحال پر مودی نے اپنے لب سی لیے ہیں۔ان حالات میں مولانا سید احمد بخاری کی لب کشائی اور یہ کہنا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے، پروفیسر گیگوری سٹنٹن کی تشویش اور خیالات کو درست ثابت کرتے ہیں۔اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کو بھارت کے ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں نسل کشی سے بچائیں یا پھر بوسنیا ہرزگوینا میں سربوں کے ہاتھوں نسل کشی کو بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں دوہرانے دیں ۔جس کے بعد کمیشن بنیں گے اور پھر لمبی چوڑیں تقرریں ہوں گی اور پھر ملاسوچ کے نقش قدم پر مودی اور اس کے قبیل کے دیگر لوگ چل کر خود کشیاں کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کریں گے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button