5جنوری یوم حق خود ارادیت
: محمد شہباز
کنٹرول لائن کے دونوں طرف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج 5 جنوری کو یوم حق خود ارادیت کے طور پر مناکر اپنے اس عزم کی تجدید کررہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اپنے ناقابلِ تنسیخ حق ،حق خود ارادیت کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یوم حق خود ارادیت منانے کی اپیل کل جماعتی حریت کانفرنس نے کی ہے۔ آج آزاد جموں و کشمیر، پاکستان اور دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں سمیت مختلف پروگراموں کے ذریعے اقوام متحدہ کو یاد دلایا جارہا ہے کہ اسے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔یہ 5جنوری 1949 کا دن تھا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔ یہ قرارداد دیرپا تنازعہ کشمیر کے حل کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو جنوبی ایشیا میں ایک جوہری فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ قرارداد پر عملدرآمد میں واحد رکاوٹ بھارت کامنفی رویہ، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے۔عالمی ادارے کی05 جنوری1949 کی قرارداد پر آج تک عملد رآمد نہ ہونے کی وجہ سے کشمیری عوام مسلسل مصائب ومشکلات سے دوچار ہیں۔ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حوالے سے منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
بھارت یکم جنوری 1948 میں مسئلہ کشمیر خود ہی اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ 15 جنوری 1948 میں سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا، 20 جنوری کو سلامتی کونسل نے کمیشن برائے پاک و ہند کا تقرر عمل میں لایا اور 28 جنوری 1948میں سلامتی کونسل کے صدر نے اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے کرانے پر رضامند ہو گئے ہیں جو غیرجانبدارانہ اور آزاد انہ طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔ یکم جنوری 1949 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور 5 جنوری 1949 میں کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی جس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی کا ذکر تھا جس پر عملدر امد بھی ہو چکا تھا۔
انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948 میں قرارداد میں پاکستان سے اپنی فوجیں نکالنے کیلئے کہا گیا۔ پاکستان نے یہ مطالبہ منظور کیا تھا لیکن 14 مارچ 1950 میں سلامتی کونسل نے یہ قرارداد منظور کی کہ اب دونوں ممالک پاکستان اور بھارت بیک وقت فوجوں کا انخلا شروع کریں گے۔ 13 اگست 1948 کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اپنی فورسز کو نکال لے گا تو یہاں کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالیں گی اور کمیشن ان کی نگرانی کرے گا۔مذکورہ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ بھارت کو اپنی ساری ا فواج رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔بلکہ اس قرار داد میں یہ طے پایا کہ اس کے بعد بھارت بھی اپنی ا فواج کا بڑا حصہ مقبوضہ جموں وکشمیر سے نکال لے گا اور اسے صرف اتنی ا فواج رکھنے کی اجازت ہو گی جو امن عامہ برقرار رکھنے میں مقامی انتظامیہ کی مدد کیلئے ضروری ہو۔جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کیلئے مطلوبہ منصوبہ مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات پیش کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف مکمل غیر مسلح کیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے، اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ڈینجر ان کشمیر کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔جوزف کاربل کا تعلق چیکو سلواکیہ سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئر مین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے اپنی ا فواج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق بھارت جو ضروری ا فواج مقبوضہ جموں و کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اورتعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کر دیا۔اس پر جنگ بندی کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر دیں جو ایک آربٹریٹر کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ خودبھارتی نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ معاملے کے حل کیلئے سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل ہی کے صدر مک ناٹن پر مشتمل ایک یک رکنی کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے کہا کہ اب دونوں ممالک بیک وقت اپنی فوجیں نکالتے جائیں گے تا کہ کسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی۔ بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تجویز کو سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950 میں ایک قرارداد کی شکل میں منظور کر لیا۔ گویا اب اقوام متحدہ کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت فوجیں نکالنا شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔ انہوں نے فوجی انخلا کی بہت سی تجاویز دیں۔ پاکستان نے سب مان لیں ، بھارتی وزیر اعظم نے ایک بھی نہ مانی۔ 1951 میں بھارت نے کہا ہمیں خطرہ ہے اس لیے ہم فوجیں نہیں نکالیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم گورڈن منزیزنے مشترکہ ا فواج کی تجویز دی بھارت نے وہ بھی رد کر دی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم کامن ویلتھ کی فوج بھیج دیتے ہیں، بھارت نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔ معاملہ ایک بار سلامتی کونسل میں چلا گیا۔ 30 مارچ 1951 میں سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کر کے کہا کہ تین ماہ میں فوجیں مقبوضہ جموں و کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ مسٹر فرینک نے چھ تجاویز دیں بھارت نے تمام کی تمام تجاویز رد کر دیں۔صرف خانہ پری کیلئے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جب کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی افواج نکال لے ، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں ، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں ، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں۔ گراہم نے اس میں کچھ ردو بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں ، بعد میں بھارت اس سے بھی مکر گیا۔ سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز دی کہ آربٹریشن کروا لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو انخلا کے معاملے میں کون سا ملک تعاون نہیں کر رہا۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہو گیا ، بھارت نے یہ تجویز بھی ردکر دی تھی۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غاصابنہ قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار کشمیری عوام اقوام متحدہ کی پاس شدہ قراردادوں کی روشنی میں غیرجانبدارانہ استصواب رائے چاہتے ہیں۔جو ان کا بنیادی حق ہے ،جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دی جاچکی ہے۔جبکہ بھارت اقوام عالم کو گواہ ٹھرا کر کشمیری عوام کیساتھ حق خود ارادیت کا یہ وعدہ کرچکا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر پربھارت کے ظالمانہ قبضے کے 76 برس گزرنے کے باوجود بھی کشمیری عوام استصواب رائے کے اپنے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو برقرار رکھا گیا ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی لازمی رائے شماری کے مطالبے پر بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔کشمیری عوام استصواب رائے کیلئے تاریخ کی لازوال اور بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔کشمیری عوام اقوام متحدہ کی سرپرستی میں رائے شماری کے انعقاد تک قربانیوں سے مزیں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔فسطائی مودی حکومت وحشیانہ ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حربوںکا سہارا لے کر کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کر سکتی۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری سے انحراف کرکے کئی دہائیوں سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔یقینا مقبوضہ جموں و کشمیر پر بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کیلئے بھارت کو جوابدہ ٹھرایا جانا چاہیے۔تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیائی خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کا واحد اور مستقل ذریعہ ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا فوری حل تلاش کرنے کیلئے دنیا کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام عالم کو گواہ ٹھرا کر اقوام متحدہ کے سامنے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں بھارت پر دباو ڈالا جانا چاہیے تاکہ اس تنازعہ کے حل سے نہ صرف کشمیری عوام بنیادی استصواب رائے کے ذریعے مستفید ہوسکیں بلکہ جنوبی ایشیائی خطہ امن و استحکام کا گہوارہ بن سکے،جو گزشتہ کئی دہائیوں سے عدم استحکا م اور افراتفری سے دوچار ہے۔