برصغیر جنوبی ایشیا کا امن مسلسل خطرات سے دوچار ہے،اس کی بڑی وجہ اس خطے میں بھارت کا معاندانہ رویہ ہے،جس نے اپنے تمام پڑوسی ممالک کیساتھ باالعموم اور پاکستان کیساتھ بالخصوص تعلقات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ نہ تو اس خطے میں امن و استحکام پیدا اور نہ ہی یہ خطہ ترقی میں آگے بڑھ پاتا ہے،وہ چاہیے اس خطے میں سارک یا شنگھائی تعاون تنظیموں کے پلیٹ فارم ہوں،یا کوئی اور مقامی تنظیم،غرض بھارتی حکمرانوں نے گزشتہ پندرہ برسوں میں اس خطے کو یرغمال بناکررکھا ہے۔بی جے پی ،جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھتی ہے ،نہ تو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر آمادہ ہے اور نہ اپنے ہمسایوں کیساتھ تعلقات بہتربنانے کی کوشش کرتی ہے، بی جے پی جس نے RSS کی کوکھ سے جنم لیا ہے،ہر وقت اس خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے درپے رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب سے بی جے پی اور مودی بھارت میں برسر اقتدار آئے ہیں،اس خطے میں امن ناپید ہوچکا ہے۔بھارت اس خطے کا واحد ملک ہے ،جس نے تمام پڑسیوں کیساتھ پرامن بقائے باہمی پر مبنی تعلقات کی نہج کو اس حد تک خراب کیا ہے ،کہ کوئی ملک اس کیساتھ اب تعلقات کی بحالی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔اس کی وجہ اس خطے میں بھارت کا پولیس مین کا کردار ادا کرنے کی وہ بیماری ہے ،جس نے بھارت کی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔مودی کی قیادت میں بھارت ہی جنوبی ایشیائی خطے میں امن خراب کرنے والا واحد ملک ہے۔کیونکہ بھارتی حکومت کی آر ایس ایس پر مبنی پالیسیاں علاقائی ہم آہنگی کو درپیش ایک اہم خطرہ ہیں۔بھارت جوکہ اس پورے خطے کے ممالک کی ان کی اپنی داخلہ پالیسیوں کے نفاذ میں بار بارمداخلت کرنے کی نہ صرف کوشش بلکہ پنگا بازی میں بھی مشہور ہے،کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھارت تنہائی کا شکار ہے۔مالدیپ سے بھوٹان اور نیپال جوکہ خطے کے ممالک کے مقابلے میں نسبتا چھوٹے اور جزیروں پر مشتمل ہیں،اپنے ہاں سے بھارت کا بوریا بسترا گول کراچکے ہیں۔سری لنکا کے امن کو تخت و تاراج کرنے میں بھارت کئی برسوں سے ملوث ہے اور پھر وہاں سے بھارت کو شٹ آپ کال دی جاچکی ہے۔ چین کیساتھ بھارتی تعلقات کی نوعیت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔بیجنگ نے سال 2023 کا اسٹینڈرڈ میپ جاری کیا ہے جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کیساتھ واقع علاقہ اکسائی چین اور شمال مشرقی بھارتی ریاست اروناچل پردیش کو چین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں چین کے خودمختار علاقے تبت کیساتھ واقع ہیں۔چینی افواج جولائی 2020 میں وادی گلوان میں بیسیوں بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرکے بھارت کو سبق سکھانے کا ہلکا سا مظاہرہ کر چکی ہے ،جبکہ اروناچل پردیش میں تو چین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تعمیراتی کاموں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بھارت جو کہ شروع دن سے پاکستان کا ازلی دشمن ہے ہی ،اب بنگلہ دیش نے بھارت کو اپنے ہاں سے بے عزت کرکے نکالا ہے،جہاں گزشتہ پندرہ برسوں سے بھارت شیخ حسینہ کی موجودگی میں سیاہ سفید کا مالک بنا ہوا تھا،لیکن روان برس 05 اگست کو ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی اور پھر ملک سے فرار ہونے کے بعد بھارت کی حالت اس کی بانجھ خاتون کی سی ہوگئی ہے جو کتی کے بچے گود لیتی ہے۔ بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس اور ان کی حکومت نے نہ صرف بھارت کو اپنے ہاں سے ماربھگایا ہے بلکہ بھارت میں موجود اپنے ان سفارتکاروں کو بھی واپس بلایا ہے،جنہیں حسینہ واجد حکومت نے تعینات کیا تھا،اس اقدام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش بھارت اور اس کی پالیسیوں سے کسقدر نالاں ہیں۔بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ میں طویل عرصے کے بعد گیارہ ستمبر کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی76ویں برسی منائی گئی ۔ ڈھاکہ پریس کلب میں اردو ترانے بھی گائے گئے، اردو شاعری کے علاوہ قائد اعظم کی شخصیت پر آرٹیکل بھی لکھے گئے۔بنگلہ دیشی اخبارات کے مطابق یہ بہت عرصے بعد پہلا موقع تھا کہ قائد اعظم کی برسی ڈھاکہ پریس کلب میں منانے کا اہتمام کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ یہ بڑی تبدیلی اور پیش رفت حسینہ واجد کی مسلسل پندرہ برسوں تک رہنے والی حکومت کے خاتمے کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔حسینہ حکومت کا خاتمہ بنگلہ دیش پر بھارتی تسلط اور غلبے کے خاتمے کا بھی باعث بن گیا ہے۔ بنگلہ دیشی عوام خصوصا نئی نسل میں پاکستان کے بارے میں جذبات انتہائی مثبت انداز لیے ہوئے سامنے آ رہے ہیں۔قائد اعظم کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقررمحمد شمس الدین نے کہا ‘ اگر 1947 میں بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کے طور پر آزاد نہ ہوتا تو آج ہماری حالت بھی مقبوضہ کشمیر جیسی ہوتی جہاں بھارتی فوجی ہتھیاروں اور اسلحے سے لیس ہر کشمیری پر تانے کھڑے ہوتے ہیں ۔’ محمد شمس الدین نے یہ بھی کہا علامہ اقبال ہال اور جناح ایونیو کے نام بھارت ختم کرانا چاہے تھے۔ مگر ہم نے ایسا نہ ہونے دیا ۔ ضرورت ہے بنگلہ دیش بھارت کے مقابلے میں چین اور پاکستان کیساتھ تعلقات کو مضبوط کرے۔’بنگلہ دیشی اخبار کے مطابق اس تقریب میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔جبکہ اس موقع پر بنگلہ دیش میں زیر تعلیم دو پاکستانی طلبہ نے بطور خاص اس تقریب میں شرکت کی اوراپنے ملک سے محبت کیلئے قومی ترانے گائے ۔
بھارت جو کئی دہائیوں سے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔5 اگست 2019 میں مودی حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات علاقائی استحکام کیلئے اس کی پالیسی کو واضح طور پر یکسر نظر انداز کرنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا وحشیانہ قبضہ اور اس کا جارحانہ موقف جنوبی ایشیا میں امن کی راہ میں واحد بڑی رکاوٹیں ہیں۔بھارت میں2014 میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے علاقائی امن کیلئے خطرات ڈرامائی طور پر بڑھ گئے ہیں۔اپنے پڑوسیوں کے خلاف بھارت کی محاذ آرائی کے باعث جنوبی ایشیا مسلسل عدم استحکام سے دوچارہے اور آئندہ بھی رہے گا۔پاکستان جو مسلسل عالمی برادری کے سامنے خطے میں بھارت کے اشتعال انگیز رویئے کو بے نقاب کرتا ہے۔عالمی برادری کو بھارت کے منفی اور ہٹ دھرمی پر مبنی کردار کو جنوبی ایشیا میں امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر اب تسلیم کرنا چاہیے۔اس بات کو اب ایک عام عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی محسوس کرتا ہے،کہ بھارت کے علاوہ اسرائیل جو امریکہ اور یورپ کی ناجائز اولاد ہے،ان دونوں کوپوری دنیا کے امن کی نہ تو کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی یہ اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم کو کسی خاطر میں لاتے ہیں۔اگر مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں گزشتہ 78 برسوں سے بے توقیر ہیں ،تو اس کی وجہ بھارت اور اس کی پالیسیاں ہیں۔یہ بھارتی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ کشمیری عوام کی چار نسلیں مسئلہ کشمیر کی نذر ہوچکی ہیں ۔گوکہ کشمیری عوام بھارت کی جابرانہ پالیسیوں کو نہ تو پہلے قبول کرچکے ہیں اور نہ آج کے دن میں کررہے ہیں،اہل کشمیر نسل در نسل قربانیوں کی ایک لازوال تاریخ رقم کررہے ہیں،جن کا مقصد بھارت کو مسئلہ کشمیر اہل کشمیر کی امنگوں اور خواہشات کے علاوہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے پر مجبور کرنا ہے،یہی وجہ ہے کہ 1989 میں کشمیری عوام نے بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے ایک ریاست گیر تحریک شروع کی ،جس میں ایک لاکھ کے قریب کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں،جبکہ آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔بھارتی حکمران اپنی دس لاکھ سفاک اور درندہ صفت افواج کیساتھ کشمیری عوام پر حملہ آور ہیں،تاکہ انہیں بھارت کے ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی سے دستبردار کرایا جائے،اس کیلئے ہزاروں کشمیریوں اور ان کی پوری قیادت بھارت کی کال کوٹھریوں میں بند کرکے ان کیساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک ،آئے روز کشمیری عوام کی جائیدادو املاک اور رہائشی مکانات کو بندوق کے بل پر قبضے میں لینا،یہاں نت نئے قوانین کا نفاذ اور ان قوانین کی اڑ میں غیر ریاستیوں کیلئے ڈومیسائل فراہم کرنے کے مذموم منصوبے،مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق بھارتی حکمرانوں کے اقدامات اور ان کے نظریئے کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارتی حکمران مسلم اکثریت مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہندو اقلیت میں تبدیل اور اس کے حصے بخرے کرنے کے در پے آزار ہیں۔گوکہ کشمیری عوام ابھی تک بھارتی حکمرانوں کے عزائم میں روکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور اب تو کشمیری عوام کے بچے بچے کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ اپنی سرزمین پر ا ن کا وجود ناگزیر ہے ،جس کو مٹانے یا ختم کرنے کی بھرپور کوشیشں جاری ہیں ۔بھارتی حکمران اگر اس خطے میں امن و استحکام دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اولین فرصت میں اکھنڈ بھارت کا مذموم منصوبہ ترک کرکے اپنے تما م پڑسیوں کیساتھ بہتر تعلقات اور ان ممالک میں عدم استحکام اور مداخلت سے باز آنا ہوگا۔تب ہی اس خطے کو امن نصیب ہوگا ،لیکن بھارت میں اقتدار پر فائز موجودہ حکمران ٹولے کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کی امید کی جاسکتی ہے۔