مقبوضہ جموں و کشمیر

مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی پولیس کی متنازعہ مردم شماری سے لوگ پریشان

controversial census in IIOJK

سرینگر(کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس نے لوگوں کے غیر ملکی دوروں کی تفصیلات سمیت ذاتی کوائف جمع کرنے کے لیے ایک جامع مردم شماری شروع کی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس اقدام کی قانونی اورآئینی حیثیت اورممکنہ غلط استعمال کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے ماہرین کی رائے ہے کہ مردم شماری میں پولیس کی شمولیت قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ موجودہ قانونی فریم ورک سے متصادم ہے۔ اگرچہ مردم شماری کے ترمیم شدہ قوانین محققین کو مائیکرو ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اسے صیغہ راز میں رکھا جائے اور حساس اور ذاتی معلومات کے استعمال پر پابندی ہو۔ لہذا قانونی ماہرین کے مطابق جموں و کشمیر پولیس کی حالیہ کارروائیاں ان قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی ہیں۔ وادی کشمیر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس افسران گھر گھر جا رہے ہیں، فارم تقسیم کر رہے ہیں اور رہائشیوں سے ذاتی معلومات فراہم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ پولیس کی طرف سے تقسیم کیے گئے فارم میں خاندان کے سربراہ، علاقے سے باہر رہنے والے خاندان کے افراد، ان کی عمر، رابطے کی تفصیلات، گاڑیوں کی رجسٹریشن، گھر میںنصب کئے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کے بارے میں معلومات اوراہلخانہ کے کوائف طلب کئے گئے ہیں۔ آپریشن میں شفافیت کے فقدان نے علاقے کے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ آپریشن کس قانون کے تحت کیا جا رہا ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ مختلف تھانوں کی طرف سے تقسیم کیے گئے فارموں پر” مردم شماری 2024”کا عنوان ہے اور ان پر متعلقہ تھانے یا پولیس چوکی کے نام کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اگرچہ مختلف تھانوں کی طرف سے جاری کردہ فارمز میں تھوڑا فرق ہے، لیکن لوگوں سے طلب کی گئی معلومات ایک جیسی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کوائف اکٹھا کرنے سے خطے میں تشویش پیدا ہوئی ہو۔گزشتہ سال بھی اسی طرح کا ایک مردم شمار ی فارم سرینگر میں تقسیم کیا گیا جس کے بعد سیکورٹی ایجنسیوں پر سیاسی پروفائلنگ کے الزامات لگے۔ اس سے قبل جموں کے کچھ لوگوں نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ایک پرائیویٹ ایجنسی کے اہلکاروں کی طرف سے کرائی گئی اسی طرح کی مردم شماری کی مخالفت کی تھی۔ نومبر 2023میں ایک علاقے کے لوگوںنے جموں میونسپل کارپوریشن کے اہلکار ہونے کا دعوی کرنے والے افرادکو روکا اور بھگا دیا۔ اس واقعے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا گیا جس میں اس طرح کے کوائف اکٹھا کرنے کی حساسیت کو اجاگر کیا گیا۔ 1990کی دہائی میں بھارتی فوج اور بارڈر سیکیورٹی فورس تمام گھرانوں کے کوائف جمع کرنے اور عسکریت پسند گروپوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی غرض سے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے گھر گھر جا کر سروے کرتی تھی۔ پولیس نے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی نگرانی کے لیے کئی ونگ قائم کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک سیکشن” ڈائل 100”صحافیوں کا پس منظر معلوم کرنے کے لئے کام کرتا ہے جس میں میڈیا میں ان کے پورے پیشہ ورانہ کیریئر کی تفصیلات معلوم کرنا ، ان کے ادارے کا نام، خاندانی تعلقات، غیر ملکی سفر وغیر ہ شامل ہیں۔ تاہم یہ پہلی بار ہے کہ ایجنسیوں کی جانب سے وسیع اور منظم طریقے سے پوری آبادی کے کوائف جمع کئے جارہے ہیں۔ ماہرین اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مردم شماری 2024پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے پولیس کے اختیارات سے غیر آئینی تجاوز اورزیر نگرانی ریاست قراردیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے چیئرمین آکار پٹیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی ریاست اس طرح کی معلومات کا تقاضا کر کے کشمیریوں کے حقوق اور وقار کو پامال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ قومی مردم شماری کرانے سے قاصر بھارتی حکومت خاندانوں کو مضحکہ خیز اور ذلت آمیز دستاویزات بھیج رہی ہے، جو رازداری اور وقارسمیت ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ممتاز ڈیٹا پروٹیکشن ماہر اوشا رامناتھن نے کہاکہ وسیع ڈیٹا اکٹھا کرنا شہریوں کی پرائیویسی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست ذاتی معلومات کو غیر معمولی تفصیلات کے ساتھ جمع کررہی ہے جس سے ہر فرد کا انفرادی پروفائل تیارکیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے اس کاموازنہ متنازعہ آدھار سسٹم سے کیا جو رضاکارانہ شناختی کارڈ پروگرام کے طور پر شروع کیاگیا لیکن بعد میں لازمی قراردیاگیاجس سے متعدد مسائل اور رازداری کے خدشات پیدا ہوئے۔ انہوں نے پولیس کی زیرقیادت ہونے والی مردم شماری پر سوال اٹھایاکہ ریاست کا کون سا جائز مقصد اس طرح کے جامع اقدام کا جواز پیش کر سکتا ہے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کے ممکنہ استعمال کے بارے میں معلومات کے فقدان پر تنقید کی۔انہوںنے استدلال کیا کہ اس آپریشن سے ایک مداخلت کرنے والا نگرانی کا طریقہ کار بنایاگیا جس سے ریاست کو شہریوں کی زندگیوں کے ہرپہلو تک رسائی فراہم ہوگی۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button