فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی"شہید محمد اشرف خان صحرائی”
23 مارچ 1944کو ٹکی پورہ لولاب کپواڑہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک عظیم کشمیری مزاحمتی لیڈر ، مبلغ ، استاد اور سیاسی جماعت تحریک حریت جموں کشمیر کے چیئرمین رہے ۔ شہید اشرف خان صحرائی کو باقاعدہ انتخابی عمل کے زریعے تنظیم کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔ جب شہید سید علی شاہ گیلانی نے اپنی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر تحریک حریت کے چیئرمین کہ عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ صحرائی شہید جماعت اسلامی مقبوضہ جموں کشمیر کے جنرل سیکرٹری ، سیاسی شعبے کے سربراہ اور پوری مقبوضہ ریاست کے عوام کے ہردلعزیز راہنما تھے۔
صحرائی شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم 1959 میں اپنے آبائی شہر ٹکی پورہ میں اور ثانوی تعلیم سوگام لولاب ہائی اسکول سے مکمل کی۔ ثانوی امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اتر پردیش چلے گئے جہاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔
صحرائی شہید کے دو بڑے بھائی تھے۔ ان میں سے ایک محمد یوسف خان تحریک اسلامی کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے جن کا انتقال 2016 میں ہوا دوسرے لولاب کے علاقے میں جماعت اسلامی کے معروف رکن قمر الدین خان تھے جو 2009 میں انتقال کر گئے تھے۔
صحرائی شہید طالب علم کے طور پر مذہبی ، سیاسی اور سماجی بحثوں اور مکالموں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ ایک بہترین شاعر اور قلمکار تھے انکا کلام کشمیر کے مختلف جرائد اور رسائل میں شائع ہوتا رہا ۔ انھوں نے 1969 میں سوپور سے تولو رسالہ شائع کرنا شروع کیا۔ صحرائی شہید نے پاکستان کے نام سے ایک کالم بھی لکھا جس میں پاکستان کے قیام ، حالات و واقعات کا عرق ریزی سے احاطہ کیا گیا۔
محمد اشرف خان صحرائی نے بابائے حریت شہید سید علی شاہ گیلانی کے ہمراہ ریاست کی آزادی کی تحریک کو منظم کیا ، ہندوستان کے جابرانہ فوجی قبضے اور سازشوں سے قوم کو آگاہ کیا ۔ وادی کشمیر اور صوبہ جموں کے دور دراز علاقوں میں پہنچ کر ایک ایک شخص کو حریت کا درس دیا۔ ہمت و جرات کے پیکروں نے اپنی منظم ، متحرک اور انتھک جدوجہد سے دلی سرکار کے درو دیوار ہلا دیئے تھے۔
صحرائی شہید چھ بچوں کے باپ تھے جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔ ان کے بیٹوں کے نام خالد اشرف خان ، راشد اشرف خان ، مجاہد اشرف خان اور سب سے چھوٹا بیٹا جنید اشرف خان تھا۔ صحرائی شہید کے سب سے چھوٹے بیٹے جنید احمد صحرائی نے مارچ 2018 میں کشمیری مزاحمتی تنظیم حزب المجاھدین میں باضابطہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔
جنید صحرائی نے جب کشمیر کی آزادی کے لئے میدان جہاد میں قدم رکھا تو اس وقت کے "آئی جی پی” نے صحرائی شہید کو گھر واپس بلانے کی آفر دی تھی جس پر انہوں نے تاریخی الفاظ کہے تھے کے کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے سارے بچے ہمارے ہیں اگر ہم نے انہیں واپس نہیں بلایا تو جنید کو کیونکر واپس بلائیں۔
جنید صحرائی حزب المجاھدین کے ڈویژنل کمانڈر کی حیثیت سے وادی کے طول وعرض میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے جدوجہد آزادی کے دوران ہی 19 مئی 2020 کو بھارتی قابضین کیخلاف معرکہ آرائی میں جنید صحرائی شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔ اشرف صحرائی شہید نے خود اپنے شہید بیٹے کا نماز جنازہ پڑھایا تھا۔ بھارتی قابض فوجیوں نے صحرائی شہید کو جولائی 2020 میں "پبلک سیفٹی ایکٹ” کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا اور انہیں ادھم پور ڈسٹرکٹ جیل جموں قید کردیا گیا تھا۔ مسلسل گرفتاریوں ، اذیتوں اور مشکلات نے انہیں جسمانی طور پر کافی کمزور کردیا تھا۔ جیل میں ظالم بھارتی اہلکاروں اور انتظامیہ نے تعصب اور عداوت کی حد کرتے ہوئے انہیں بیماری کی حالت میں علاج معالجے کی سہولیات سے دور رکھا ان کے اہلخانہ کئی کئی دنوں تک جیل کے چکر کاٹتے رہے انہیں ملاقات کا موقع نہیں دیا گیا۔ کمزور اور بیمار جسم کے ساتھ صحرائی شہید نے بھارتی ظالموں کا بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ بھارتی جبرواستبداد صحرائی شہید کے حوصلوں کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے یون ریاست جموں کشمیر کا ایک عظیم لیڈر ، دعوت دین و حریت کا عظیم استاد 5 مئی 2021 کو بھارتی جیل میں ہی شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ، کشمیری عوام اور صحرائی شہید کے اہل خانہ نے ان کی مظلومانہ شہادت کو حراستی "قتل” قرار دیا تھا۔ پوری مقبوضہ ریاست میں لاکھوں عوام شدید صدمے سے دو چار ہوئے ، انکی مظلومانہ شہادت نے پوری وادیِ کشمیر کو غم والم میں ڈبو دیا ۔
بھارت کے دہشت گرد اور سفاک حکمرانوں نے صحرائی شہید کی لاش 5 مئی کی شام کو اہل خانہ کے سپرد کی کشمیر کا ایک ایک شہری انکے جنازے میں شرکت اور انکی میت کا دیدار کرنا چاہ رہا تھا لیکن بھارتی بزدل حکمرانوں نے اگلے دن ان کے جنازے میں صرف ان کے خاندان کے کچھ ہی افراد کو شرکت کی اجازت دی تھی۔ صحرائی شہید کو ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ صحرائی شہید کے اہلخانہ انہیں سری نگر کے "شہداء کے قبرستان” میں دفنانا چاہتے تھے لیکن قابض انتظامیہ نے انھیں ٹکی پورہ لولاب میں ہی دفنانے پر مجبور کیا۔
صحرائی شہید کے دو بیٹوں مجاہد خان صحرائی اور راشد خان صحرائی کو والد کی شہادت کے کچھ دن بعد ہی 16 مئی کو شہید والد کے جنازے میں اسلام اور آزادی کے حق اور بھارت مخالف نعرے لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
شہید محمد اشرف خان صحرائی کی مظلومانہ شہادت جو انہوں نے بھارتی زندانوں میں پیش کی ، انکے جواں سالہ بیٹے جنید صحرائی کی قومی آزادی کے لئے میدان عمل میں لڑتے ہوئے شہادت پانا اس بات کا اظہار ہے کہ کشمیری عوام اپنے اسلامی تشخص ، قومی آزادی اور نسل نو کے محفوظ مستقبل کے لیے جدوجہد کو جاری رکھیں گے ۔
تحریر :- عزیراحمدغزالی چیئرمین پاسبان حریت جموں کشمیر