مضامین

تحریک آزادی کشمیر اور بھارتی پروپیگنڈہ

محمد شہباز

shahbazمقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کو تمام تر جبر اور بربریت کے باوجود دبانے میں ناکامی کے بعد بھارت نے اب کشمیری آزادی پسندوں کے علاوہ پاک افواج کے خلا ف بھی بڑے پیمانے پر وپیگنڈہ شروع کیا ہے۔جس کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی حقیقی زمینی صورتحال کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے علاوہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔بھارت کے ایک انگریزی روز نامہ” بزنس ٹوڈے "میں بھارتی فوجی ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے ،جس میں کہا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لڑنے والے آزادی پسندوں کے ہاتھ ایسے موبائل ہینڈ سیٹس لگے ہیں،جو بنیادی طور پر چینی ٹیلی کام گیئر "الٹرا سیٹ کمپنی” پاک ا فواج کیلئے تیار کرتی ہے۔اخبار نے بھارتی فوجی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ خصوصی ہینڈ سیٹس، جنہیں چینی کمپنیوں نے پاکستانی افواج کیلئے خصوصی طور پر اپنی مرضی کے مطابق بنایا ہے، گزشتہ برس 17-18 جولائی کی درمیانی شب جموں خطے کے پونچھ ضلع میں سرنکوٹ کے سندھاڑہ ٹاپ علاقے میں اور رواں برس 26 اپریل کو شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں سوپور کے چک محلہ نوپورہ میں ایک جھڑپ کے بعد قبضے میں لیے گئے تھے۔اخباری رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ سرنکوٹ میں چار جبکہ سوپور میں دو مجاہدین شہید کیے گئے۔
اخباری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ "الٹرا سیٹ” ہینڈ سیٹس، جو پونچھ میں پیر پنجال کے جنوبی علاقے میں بھی پائے گئے ہیں، سیل فون کی صلاحیتوں کو خصوصی ریڈیو آلات کے ساتھ جوڑتے ہیں جو گلوبل سسٹم فار موبائل (GSM) یا کوڈ ڈویژن جیسی روایتی موبائل ٹیکنالوجیز پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔ ایک سے زیادہ رسائی (CDMA) کے حامل ہیں۔رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ یہ آلہ پیغام کی ترسیل کیلئے ریڈیو لہروں پر کام کرتا ہے، ہر ایک "الٹرا سیٹ” کیساتھ مرکزی اسٹیشن سے منسلک ہوتا ہے، بھارتی فوجی حکام نے مزید دعوی کیاکہ دو "الٹرا سیٹ” ایک دوسرے سے منسلک بھی نہیں ہیں۔ جبکہ چینی سیٹلائٹس ان پیغامات کو لے جانے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ ہینڈ سیٹ سے ماسٹر سرور کے بائٹس تک کمپریس کر کے آگے کی ترسیل کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔بھارتی فوجی حکام نے کہا کہ یہ چین کی طرف سے اپنے اہم اتحادی پاکستان کیلئے ایک اور مدد ہے۔اخبار بزنس ٹوڈے میں بھارتی فوجی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیجنگ کافی عرصے سے کنٹرول لائن کیساتھ پاکستانی ا فواج کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس مدد میں سٹیل ہیڈ بنکرز کی تعمیر، بغیر پائلٹ کے فضائی اور جنگی فضائی گاڑیوں کی فراہمی، خفیہ مواصلاتی ٹاورز کی تنصیب اور زیر زمین فائبر کیبل بچھانا شامل ہے۔اس کے علاوہ چینی ریڈار سسٹم جیسے کہ "JY” اور "HGR” سیریز کو ہدف کا پتہ لگانے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں تعینات کیا گیا ہے، جبکہ کنٹرول لائن کیساتھ ساتھ مختلف مقامات پر SH-15 ٹرک پر نصب ہووٹزر جیسے جدید ہتھیاروں کا مشاہدہ بھی عمل میں آیا ہے۔رپورٹ میںبھارتی فوجی حکام کا مزید کہنا ہے کہ ان کوششوں کو آزاد کشمیر میں چین کے اسٹریٹجک مفادات کو تقویت دینے کے طور پر سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے سلسلے میں یہ اہم پیشرفت ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے اگرچہ اگلی پوسٹوں پرچین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کے سینئر اہلکاروں کی موجودگی کا پتہ نہیں چل سکا، لیکن حاصل کیے گئے مواصلاتی پیغام سے پتہ چلتا ہے کہ چینی فوجی اور انجینئر کنٹرول لائن کیساتھ بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانے میں شامل رہے ہیں، بشمول آزاد کشمیرکی وادی لیپا میں زیر زمین بنکرز اور سرنگوں کی تعمیر میں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان اقدامات سے پاکستان میں گوادر بندرگاہ اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے درمیان شاہراہ قراقرم کے ذریعے ایک براہ راست روٹ قائم کرنے میں مدد ملے گی ۔
انگریزی اخبار بزنس ٹوڈے میں بھارتی فوجی حکام کے حوالے سے مذکورہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس ڈائریکٹر جنرل آر آر سوین کا کہنا ہے کہ بھارتی پولیس ان مقامی لوگوں کے خلاف دشمن ایجنٹس ایکٹEAA کے تحت مقدمہ درج کرے گی جو کسی بھی شکل میں عسکری تحریک کی حمایت میں ملوث پائے جائیں گے ،جو غیر قانونی روک تھام ایکٹ کے کالے قانوںUAPA سے زیادہ سخت ہے۔بھارتی پولیس سربراہ کا یہ کہنا کہ اگر کوئی مقامی شخص کسی بھی طرح سے عسکری تحریک اور عسکریت پسندوں کو پناہ دینے، مدد کرنے یا رہنمائی کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے، تو ہم اس کے خلاف EAA کے تحت مقدمہ درج کریں گے۔ ہمیں صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ اس شخص نے ازادی پسندوں کی حمایت کی ہے ،”EAA کے تحت کم از کم سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔”بھارت دراصل مقبوضہ جموں و کشمیر میں من گھڑت الزامات کے تحت کشمیری عوام کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کیلئے "دشمن ایجنٹس ایکٹ” EAA””کہلانے والے ظالمانہ قانون کو نافذکرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس ظالمانہ قانون کے تحت مودی حکومت کی غیرمنصفانہ عدلیہ کی طرف سے سزا سنانے والوں کو 5 برس تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔مذکورہ قانون کے تحت بھارتی پولیس بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی پسندوں کے ہمدرد اوربالائے زمین کارکن (OGWs) قرار دینے کے بعد گرفتار کرے گی۔یاد رہے کہ دشمنوں کے ایجنٹس ایکٹ، جسے آخری بار 1970 کی دہائی میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں نافذ کیا گیا تھا۔اب دوبارہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ کرنے پر غور شروع کیا گیا ہے۔ جو بھارت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبانے میں بری طرح ناکام ہے ،لہذا اب بھارت نے مزید مذموم ہتھکنڈے ازمانے پر غور و خوض شروع کیا ہے۔
بھارت او ر اس کے حواری تحریک آزادی کشمیر کو زیر کرنے میں ناکام ہیں۔گوکہ بھارتی حکمران آئے روز یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھارت کے خلاف تحریک کو ختم کیا گیا ہے اور کشمیری عوام اب اصل کی طرف واپس آچکے ہیں،جو بھارت کا اصل مقصود ہے،مگر مقبوضہ جموںو کشمیر کے حالات و واقعات کچھ اور ہی کہانی سنارہے ہیں۔جس کی جانب کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے 21 جون کو جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے توجہ مبذول کرائی ہے کہ ایک جانب بھارتی حکمران مقبوضہ جموںو کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے دعوے کرتے ہیں تو دوسری جانب مسلمان کشمیر کو جامع مسجد اور عید گاہ سرینگر میں نماز عید کی ادائیگی سے طاقت کی بنیاد پر روکا جاتا ہے،جو اس بات کا غمازہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور بھارتی حکمرانوں کا طرز عمل ثابت کرر ہاہے کہ پوری دنیا مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھارتی دعوئوں کو نہ پہلے تسلیم کرتی تھی ،نہ اب کرتی ہے اور نہ ہی آئندہ کرے گی بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جتنا جلد مذاکرات کی میز سجائے جائے گی ،اتنا ہی بھارتی حکمرانوںا ور بھارتی عوام کے حق میں بہتر ہوگا۔بھارتی حکمرانوں نے 05اگست 2019 میں مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرتے وقت یہ دعوی کیا تھاکہ اب یہاں دودھ اور شہد کی نہرین بہیں گئیں۔دودھ اور شہد تو نہ بہا البتہ اہل کشمیر جو دو وقت کا کھانا کھاتے تھے،وہ اب ایک وقت پر آگئے اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان بے روز گاری سے دوچار ہوئے۔چلتے ہوئے کاروبار کو بریکیں لگ گئیںاور مقبوضہ جموں وکشمیر کی معیشت نہ صرف زوال پذیر بلکہ تباہی سے دوچار ہوئی۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 1700000پڑھے لکھے کشمیر ی نوجوان بے روز گار ہیں۔ان میں سے اکثریت اپنی عمر کی حد کو کراس کرچکی ہے۔بھارتی دہشت گردی اور مظالم نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔مقبوضہ جموںو کشمیر جو کبھی پوری دنیا میں جنت کے نام سے جانا جاتا تھا ،آج 60 فیصد آبادی ذہنی تناو میں مبتلا ہے۔حالیہ بھارتی پارلیمانی انتخابات میںمودی اور اس کی فرقہ پرست جماعت بی جے پی کو مقبوضہ وادی کشمیر میں امیدوار تک نہیں ملا۔پھر شمالی کشمیر میں عمر عبداللہ اور بی جے پی پراکسی سجاد لون کی شکست اور تہاڑ جیل میںبند انجینئر رشید کی کامیابی بھارتی حکمرانوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ اہل کشمیر کیا چاہتے ہیں۔اب بھارتی فوجی ذرائع کا اس بات پر واویلا کرنا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی پسندوں کے ہاتھ جدید ٹیکنالوجی لگی ہے،خود اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ٹیکنالوجی کسی کی میراث نہیں ہے۔اگر بالفرض کشمیری آزادی پسندوں کے ہاتھ چینی ٹیکنالوجی لگی ہے تو کیا اس سے پاک افواج کیساتھ جوڑا جاسکتا ہے؟قطعا نہیں ،عالمی مارکیٹ میں چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں،کشمیری آزادی پسندوں نے خود کو دشمن کے خلاف جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا ہے تو یہ ان کا حق ہے ۔بھارتی حکمران اور اس کی دس لاکھ افواج اس بات پر غور و فکر کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ کشمیری عوام کو تمام حربوں اور مظالم کے باوجود زیر نہیں کرپاتے؟اس کا جواب بہت ہی آسان ہے کہ اہل کشمیر اپنی تین نسلیں تحریک آزادی پر قربان کرچکے ہیں جبکہ تحریک آزادی چوتھی نسل کو منتقل ہوچکی ہے۔ایسے میں اس تحریک کو دبانا یا اس سے ختم کرنا مودی اور اس کی دہشت گرد فوج کے بس کا کام نہیںہے۔اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیکر ہی بھارت اس دلدل سے نکل سکتا ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button