دفعہ 370کے بارے میں موقف پر نیشنل کانفرنس کو عوام کے تلخ سوالات کا سامنا
سرینگر:غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر سے بھارتی پارلیمنٹ کے رکن آغا روح اللہ مہدی کوسوشل میڈیا پر ایک گرما گرم بحث میں تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دفعہ370کے بارے میں نیشنل کانفرنس کے موقف پر عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس معاملے پر سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر)پر بڑے پیمانے پر بحث چھڑگئی ہے جہاں صارفین نے نیشنل کانفرنس کے وعدوں اور ماضی کے اقدامات پر سوال اٹھائے۔ ایک صارف عمیرہ میر نے روح اللہ مہدی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ” انہوں (این سی )نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور من گھڑت اور بے بنیاد وضاحتوں سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے آپ کا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی خاطر آپ کو وہاں رکھا ہے،لیکن ذرا انتظار کریں،جلد ہی 2019میں نیشنل کانفرنس کے اقدامات کے بارے میں حقیقت سامنے آجائے گی۔ صارف کے مطابق دفعہ370کو ہٹانا این سی اور بی جے پی کا مشترکہ منصوبہ تھا جس کے بدلے میں این سی کو کشمیر پر اپنی خاندانی حکمرانی جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔” ایک اور صارف نے بحث میں شامل ہوکر این سی لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے حالیہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دفعہ 370سے زیادہ اہم چیزیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صارف نے روح اللہ سے کہاکہ آپ کو جموں و کشمیر کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہئے جن کے بارے میں آپ نے کہا تھا کہ جب بھی وہ اس طرح کا موقف اپنائیں گے تو آپ این سی سے الگ ہوجائیں گے۔ جموں و کشمیر کے لوگ آپ کے اگلے اقدام کا انتظار کر رہے ہیں۔ روح اللہ نے نیشنل کانفرنس کی پالیسیوں خاص طور پر دفعہ370، کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور ریزرویشن کے مسائل پر بڑھتے ہوئے عوامی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے دفعہ370کے حوالے سے پارٹی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور دفعہ 370پر قرارداداسمبلی کا پہلا کام ہوگا۔ اگر پہلا کام نہیں تو مجھے امید ہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہو جائے گی۔ نیشنل کانفرنس اس مقصد کے لیے پرعزم ہے اور میں نے انتخابات سے قبل اور بعدمیں پارٹی قیادت سے بات کی ہے۔جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا حصہ نہ ہونے کے باوجود روح اللہ نے عوام کو یقین دلایا کہ ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر وہ نیشنل کانفرنس کی قیادت پر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے دبائو ڈالتے رہیں گے۔