مضامین

بے روزگار کشمیری نوجوان اور بھارتی فوجی بھرتی مہم

: محمد شہباز


مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔اس بات کا انکشاف حال ہی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈائریکٹوریٹ آف ایمپلائمنٹ کے اعداد وشمار میں کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں علاقے میں 3.52 لاکھ نوجوان بے روزگار تھے۔ان 3.52 لاکھ بے روزگار نوجوانوں میں 1.09 لاکھ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ہیں، جو کل بے روزگاروں کا 31 فیصد ہیں۔ڈائریکٹوریٹ آف ایمپلائمنٹ ڈائر یکٹر نثار احمد وانی کا کہنا ہے کہ 2023 کی آخری سہ ماہی میں بے روزگار گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس کی تعداد میں 10 ہزار کا اضافہ ہوا تھا۔ تعلیم اور پبلک ایڈمنسٹریشن جیسے شعبوں میں تین لاکھ سے زائد آسامیاں خالی ہونے کے باوجود بے روزگاری کا مسئلہ ہنوز برقرار ہے ، اہل امیدوار طویل عرصے سے ان خالی آسامیوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ڈائریکٹوریٹ آف ایمپلائمنٹ کامزید کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ میں 1 ہزار 3 سو 35 ، صحت اور طبی تعلیم میں 415 ، محکمہ پانی میں 314 جبکہ محکمہ بجلی میں 292 اسامیاں خالی پڑی ہیں،جو پر نہیں کی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے علاقے میں بے روزگاری سنگین شکل اختیار کر رہی ہے۔ڈائریکٹوریٹ آف ایمپلائمنٹ نامی ادارے کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بے روزگاری کے سلسلے میں مختصر اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی نوجوان نسل کس قدر بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہے۔مذکورہ اعداد و شمار میں ان نوجوانوں کا خاکہ کھنچا گیا ہے،جو میٹرک یا بارہویں پاس نہیں بلکہ گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہیں،یعنی اپنی عمر کے ابتدائی 22 یا 25برس کی حد کو وہ پار کرچکے ہیں۔ اب کسی کے پاس اٹھ تو کسی کے پاس پانچ برس باقی بچے ہیں،جس کے بعد وہ نوکری کے حصول کیلئے عمر کی حد کراس کرجائیں گے،جس کے بعد ساری عمر اس پچھتاوے میں گزرے گی،کہ حصول تعلیم کے بجائے اگر کوئی ٹینکل ہنر ہی سیکھا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا،یا شروع دن سے کوئی کاروبار ہی کیا ہوتا۔جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں PHD نوجوانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔حال ہی میں ایک PHD ڈاکٹر ریڈی پر ڈرائی فروٹ بیچتے ہوئے پائے گئے اورجب ان سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی،تو ان کا کہنا تھا کہ نوکری کرنے کی کوشش کی ،تو وہ مستقل نہیں بلکہ محکمہ تعلیم میں ڈیلی ویجر کی بنیاد پر انہیں بھرتی کیا گیا۔ان سے درس وتدریس کی خدمات لینے کے بجائے دفتر میں بیکار بٹھائے رکھا گیا ،لہذا اس بیکاری سے چھٹکارہ پانے کیلئے انہوں نے ڈرائی فروٹ کی ریڈی لگانے کا فیصلہ کیا۔یہ تو صرف ایک PHDڈاکٹر کی کہانی نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ہزاروں PHDڈاکٹرز بے روز در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔اگر PHDڈاکٹرز کا یہ حال ہے تو کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو کون پوچھے گا۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں یہ مشہور مقولہ زبان زد عام ہے کہ PHDڈاکٹرز کو کوئی نہیں پوچھتاتو عام نوجوانوں کو گھاس کون ڈالے گا۔مقبوضہ جموں وکشمیر ایک ایسی ریاست ہے ،جس کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے،اور بھارت کی کوئی ریاست اس کا ہم پلہ یا ہم عصر نہیں ہے،تقابلہ تو دور کی بات ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال کشمیری تر دماغ ہیں۔ایک طرف مقبوضہ جموں وکشمیر جس کے باسی زندگی کے بہت سارے معاملات بالخصوص کھانے پینے میں خود کفیل ہیں۔چاول کشمیری عوام کی اپنی کاشت اور وافر مقدار میں دستیاب ہے، سبزیاں بھی اپنی اگائی جاتی ہیں اور وہ بھی پورا سال۔گندم اور مکئی بھی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتی ہیں۔لہذا کشمیری والدین بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ مبذول کرتے ہیں۔یہ کشمیری والدین کی اپنے بچوں کے حصول تعلیم کیلئے دلچسپی کا ہی مظہر ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں کشمیری طلبا بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں علم کی پیاس بجھانے کی جستجو میں مصروف عمل ہیں،جن میں آکسفورڈ اور ہاورڈ یونیورسٹیز قابل ذکر ہیں۔جبکہ خود بھارت کے تعلیمی اداروں میں بھی ہزاروں کشمیری بچے زیر تعلیم ہیں،جن میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھی شامل ہیں۔البتہ پھر بھی کشمیری نوجوا ن بے روز گار ہیں اور حصول روز گار کیلئے بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے یہ کسی بھی معاشرے کے دوسرے نوجوانوں کی طرح کشمیری نوجوانوں کا حق ہے اور پھر مقبوضہ جموں وکشمیر کے پشتنی باشندے ہونے کے ناطے انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے ،بھارتی حکمرانوں نے جہاں مقبوضہ جموں وکشمیر پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرکے عالمی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مٹی پلید کررکھی ہے ،کشمیری نوجوانوں کو ان کے حصول روز گار کے حق سے محروم کرنا بھارتی حکمرانوں کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے اور پھر 05 اگست2019میں فسطائی نظریات کے حامل مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے ایسے قوانین متعارف کرائے ہیں،جن میں بھارت کی دوردراز ریاستوں کے لوگوں کا تمام شعبوں بالخصوص روز گار میں باضابطہ حصہ مقرر کیا گیا ہے۔بات اگر روز گار تک ہی محدود رہتی،پھر بھی کچھ گنجائش نکلتی ،مگر مودی اور اس کے حواری اس سے بھی دو نہیں بلکہ دس قدم آگے بڑھے۔05 اگست2019 کے بعد سینکڑوں کشمیری مسلمان ملازمین کو ان کی نوکریوں سے محض ان الزامات کے تحت برطرف کیا گیا کہ ان کا جھکائو یا میلان تحریک آزادی کی جانب رہا۔ان برطرف ملازمین میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کشمیری شامل ہیں ،جن میں پروفیسر،ڈاکٹر،اساتذہ،پولیس اور دوسرے افراد شامل ہیں،جبکہ مزید سینکڑوں کو برطرفی کے ریڈار پر رکھا گیا ہے۔ان برطرف ملازمین کی جگہ بھارت سے لائے گئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے،جس سے مودی کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ایک نام نہاد بھرتی مہم کا انعقاد کیا ۔بھارتی فوجیوں کی اس بھرتی مہم کا درپردہ مقصد بے روزگار کشمیری نوجوانوں کی معاشی پریشانیوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں بھارتی افواج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دینی ہے۔کیونکہ 05 اگست2019 میں غیر آئینی اقدام کے بعد طویل بھارتی محاصرے اور پابندیوں کے باعث کشمیری عوام اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہیں ۔اس سلسلے میں حال ہی میں شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں جب کچھ نوجوان بھارتی فوجی بھرتی مرکز پہنچنے تو قابض بھارتی فوجیوں نے انہیں انتہائی ہتک آمیز سلوک کا نشانہ بنایا اور انکے خلاف توہین آمیز جملے کسے۔اس ناروا اور اہانت آمیز سلوک نے کشمیری نوجوانوں کو مشتعل کیا۔ان کے شدید ردعمل کے نتیجے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ۔تو بھارتی فوجیوں نے اس موقع پر کشمیری نوجوانوں پر شدید لاٹھی چارج کیا ۔جس سے کئی نوجوان زخمی بھی ہوگئے۔البتہ کشمیری عوام کی خمیر میں بھارت کے خلاف جو نفرت اور غم وغصہ پایا جاتا ہے،اس کا کشمیری نوجوان اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ بھارت کی جانب سے ایسے نام نہاد فوجی بھرتی پروگراموں کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر ہونے کے اپنے بے بنیاد بیانے کو تقویت دینے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا مگر بھارت کا یہ کاری وار بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔ایسے بھرتی پروگرام پہلے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں منعقد کیے جاچکے ہیں،جو آزادی کے نعروں اور احتجاج میں تبدیل ہوچکے تھے۔جیسے کہ اس آرٹیکل میں پہلے ہی ذکر کیا جاچکا ہے کہ05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے کشمیری عوام کو معاشی طور پر بھی شدید ابتر صورتحال کا سامنا ہے ، اور یہ صورتھال جان بوجھ کر پیدا کی جاچکی ہے ،تاکہ اہل کشمیر کو قدم قدم پر محتاجی سے دوچار کیا جاسکے ۔مگر قدرت کے رنگ بھی نرالے ہیں ،اللہ تعالی کی سنت تبدیل نہیں ہوسکتی ،یہ مودی اور اس جیسے فسطائی ذہنیت کے مالک دوسرے انسانیت کے قاتلوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیری عوام گزشتہ کل بھی بھارت کے خلاف نفرت کرتے تھے،آج بھی کرتے ہیں اور آنے والے کل میں بھی کریں گے۔مقبوضہ جموں وکشمیر پر ناجائز بھارتی قبضے کیخلاف اہل کشمیر کی پر امن جدوجہد جاری ہے،جس میں سوا پانچ لاکھ جانوں کے نذرانے پیش کیے جاچکے ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔مودی اور اس کے حواریوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل کشمیر اپنی قربانیوں سے مزین تحریک آزادی سے نہ ماضی میں دستبردار ہوئے اور نہ ہی اب ہوں گے۔ان قربانیوں سے صرف نظر ممکن نہیں ہے اور نوکریوں کے عوض اور لالچ میں اہل کشمیر کو خریدا جانا ممکن نہیں ہے ۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button