مسئلہ کشمیر اور چانکیائی بھارتی حکمران: محمد شہباز
مسئلہ کشمیر جو سات دہائیوں سے حل طلب چلاآرہا ہے۔آج بھی نہ صرف اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود بلکہ ادارے کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کا منتظر ہے۔کشمیری عوام کی چار نسلیں ا س تنازعے کی نظر ہوچکی ہیں اور اب یہ مسئلہ پانچویں نسل کو منتقل ہورہا ہے۔ اہل کشمیر تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے 1947سے بالعموم اور 1989 سے بالخصوص تاریخ کی عظیم اور لازوال جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اور سوا پانچ لاکھ کشمیری حق خود ارادیت کے مطالبے کی پاداش میں بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔05اگست2019 میں بھارتی حکمران اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کو ختم کرچکے ہیں مگر اقوام کی تاریخ میں جب بھی ایسے کٹھن اور مشکل مراحل آئے تو وہ ظالم کے مقابلے میں سرخرو ٹھریں۔جس کا مشاہدہ ہم ماضی قریب میں افغانستان میں کرچکے ہیں۔اہل فلسطین کی جدوجہد ایک لازوال تاریخ کی حامل ہے جبکہ کشمیری عوام بھی جدوجہد میں کسی سے کم نہیں ہیں۔بھارت بار بار اہل کشمیر کو کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے اپنی جدوجہد آزادی سے دستبردار کرانا چاہتا ہے ۔ کشمیری عوام ہر بار سرخرو ٹھرے اور بھارتی حکمرانوں کو اپنا ہی سر پھوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔آج کل مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی اسمبلی کیلئے انتخابات ہورہے ہیں۔بی جے پی مقبوضہ وادی کشمیر میں ایک سیٹ کے حصول کیلئے سر پیر مار رہی ہے مگر حالات نے بی جے پی کو دیوار کیساتھ لگارکھا ہے۔اہل کشمیر 05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا غصہ بی جے پی کے خلاف بھرپور انداز میں نکال رہے ہیں ،جس کا بی جے پی خاصکر مودی کو بخوبی اندازہ بھی ہے۔بی جے پی کے خلاف اس غصے پر مبنی ساری صورتحال کو چانکیائی سیاست کے ماہر بھارتی حکمران دنیا کے سامنے دوسرے انداز میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں،تاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف پائی جانے والی نفرت سے عالمی برادی کو گمراہ اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈھونگ انتخابات کا دوسرا مرحلہ کل منعقد ہورہا ہے اور بھارتی وازرت خارجہ نے بھارت میں امریکہ، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک کے تقریبا 20 سفارتکاروں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے دو روزہ دور ے 25 اور26 ستمبرکی دعوت دی ہے تاکہ یہ غیر ملکی سفارتکار جاری نام نہاد اسمبلی انتخابات کا مشاہدہ کرسکیں۔ غیر ملکی سفارتکاروں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دورے کی دعوت دراصل علاقے کی صورتحال کے بارے میں عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی ایک اور مذموم بھارتی کوشش ہے۔یہ بعینہ اسی طرح کی مذموم کوشش ہے جو 05اگست 2019 میں چھ ماہ تک اہل کشمیر پر فوجی محاصرہ مسلط کیے جانے کے بعد تعلیمی ادارے کھلنے پر یورپی یونین کے سفیروں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کا بھارتی فوجیوں کے زیر سایہ دورہ کرایا گیا تھاجس کا مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے جرائم سے دنیا کو بے خبر رکھنا تھا۔مگر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کے مصداق مودی یورپی یونین کے سفرا کے دورہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے اپنے جرائم پر پردہ نہیں ڈالوا سکا۔اب اسی طرز پر بھارت میں مغربی سفرا ء کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے دو روزہ دورے پر لایا جارہا ہے تاکہ ان کی زبانی بھارت کے حق میں کوئی بیان دلوایا جاسکے۔مودی اور اس کے حواری سن لیں یہ حربے اور ہتھکنڈے پہلے بھی ان کے کام نہیں آسکے اور آئندہ بھی انہیں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑے گا۔
مسئلہ کشمیربھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے نہ وہ اس سے نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں اور بھارتی حکمران اس بات سے بخوبی آگاہ بھی ہیں کہ اس تنازعے کو مذموم اقدامات سے ختم نہیں کیاجاسکتا ۔بھارتی حکمران یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے ،جس کی گواہی کنٹرول لائن کی دونوں جانب اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی اور ان کی موجودگی ہے۔لہذا ایک متنازعہ علاقے کی زمینی صورتحال کے بارے میں دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے غیر ملکی سفارتکاروں کو نام نہاد اسمبلی انتخابات کا مشاہدہ کرانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی زمینی صورتحال کا مشاہدہ اقوا م متحد ہ کے مبصرین ہی کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں اس کا مینڈیٹ حاصل ہے ۔اس کے برعکس بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں عالمی قوانین اور اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑا رہا ہے ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کسی بھی قسم کے انتخابات آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا ہرگز متبادل نہیں ہیں اور پھر لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ہونے والے ان انتخابات کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں ہے ، یہ انتخابات ایک فوجی مشق کے سوا کچھ نہیں ہیں۔کون نہیں جانتا کہ بھارت نے یہاں آزادی اظہار کا گلہ گھونٹ دیا ہے ۔پوری آزادی پسند قیادت اور کارکنوں کے علاوہ وکلا ، علمائ، طلبا ،صحافی اور انسانی حقوق کے محافظوں سمیت ہزاروں کشمیر ی کالے قوانین کے تحت بھارتی جیلوں میں بند کر رکھے گیے ہیں اور جوبھی کوئی کشمیری بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے،اس کی گرفتار ی عمل میں لاکربدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ PSA اورUAPA عائد کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔بھارتی حکمران مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں،البتہ یہ سوائے فریب اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہے ۔
بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی اسمبلی انتخابات کا اعلان کرنے کی دیر تھی کہ پورا بھارتی میڈیا جو کہ گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈیرے ڈال لیے۔مائیک اور کیمرا لیکر بھارتی صحافی جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کشمیری عوام کیساتھ جب بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کشمیر میں 05اگست2019 کے اقدامات سے کتنا بدلائو آیا ہے ؟ تو کشمیری عوام کے جوابات سے بھارتی صحافی شدید شرمندگی اور خفت سے دوچار ہوتے ہیں ۔مودی اور بی جے پی کے جہاں لتے لیے جاتے ہیں وہیں عام کشمیریوں کی جانب سے اس بات کا برملا اظہار کیا جاتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی سرزمین پر اتنے سکول اور کالج نہیں ہیں جتنے بھارتی فوجی کیمپ قائم ہیں ،ایسے میں آپ لوگ کس امن کی بات کرتے ہیں۔بعض بھارتی صحافیوں کو کشمیری عوام کے غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوسرا ایک اور اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ان ڈھونگ انتخابات میں شریک لوگ خود ہی ایک دوسرے کی شلوار اتار رہے ہیں۔ہر ایک اپنے مخالف کو بی جے پی اور مودی کی بی ٹیم قرار دیتے ہیں۔ان حالات میں مودی حکومت کی جانب سے 25 ستمبرسے بھارت میں تعینات غیر ملکی سفارتکاروں کا منصوبہ بند دورہ سرینگر مقبوضہ جموں و کشمیر کی تلخ حقیقت کو چھپانے کا محض ایک حربہ اورکشمیری عوام کی حالت زار کو نظر انداز کرنا ہے۔غیر ملکی سفارتکاربھی یہ نہ بھولیں کہ جعلی انتخابات مقبوضہ جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتے،لہذا وہ گمراہ نہ ہوں!اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام غیر ملکی سفراء سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اہل کشمیر کیساتھ روا رکھے جانے والے بھارت کے جابرانہ سلوک کا نوٹس لیں گے اور اپنی اپنی حکومتوں سے اپنی سفارشات میں اس بات کی تلقین کریں گے کہ کشمیری عوام بھارتی جبر کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں لہذا انہیں ان کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے جس کا وعدہ بھارتی حکمران پوری دنیا کو گواہ ٹھرا کر اہل کشمیر کیساتھ کرچکے ہیں۔ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت 10 لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آ نے کے دعوے کر رہی ہے۔غیر ملکی سفارتکاروں کو بھی یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کشمیر ی پنجرے میں بند جابرانہ قوانین کے تحت سچ کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہیں۔غیر ملکی سفارتکاروں کو بھارت کے کسی دھوکے میں نہیں بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی جبر کے آئینے میں صورتحال کو دیکھنا چاہئے۔اس کیساتھ ساتھ غیر ملکی سفارتکاریہ نہ بھولیں کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت نے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل ، اقوام متحدہ کے مبصرین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کے حوالے سے دروازے بند کررکھے ہیں۔
اقوام متحدہ کا سربراہ اجلاس ہر سال نیویارک میں منعقد ہوتا ہے ۔جس میں متنازعہ مسائل کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کا عزم کیا جاتا ہے مگر ظالم اور جابر قوتیں محکوم قوموں کو ان کا حق واگزار کرانے کے بجائے ان کا خون بے دردی سے بہاتی ہیں اور دنیا جہاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے وہیں اقوام متحدہ جیسا عالمی ادراہ بھی بے بسی کی عملی تصویر بناہوا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر اور ارض فلسطین بھارتی اور اسرائیلی بربریت وریاستی دہشت گردی کی عملی تصاویر ہیں۔ ایسے میں نام نہاد جمہوری بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔فسطائی مودی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کر کے کشمیری عوام کی الگ اور منفرد شناخت کو مٹانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونے تک جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو گا۔دنیا کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانیت کے خلاف جرائم پر مودی اور اس کی دہشت گرد ا فواج کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔تاکہ کشمیری عوام کو مزید قتل و غارت گری سے بچایا جاسکے۔