بھارتی فوجیوں نے05 اگست 2019 ءکے بعد 484 کشمیریوں کو شہید کیا
عالمی برادری بھارت کومقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنا فوجی محاصرہ ختم کرانے پر مجبور کرے
سرینگر 08 دسمبر (کے ایم ایس) غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے 05 اگست 2019 سے نافذ کردہ فوجی محاصرے سے علاقے کے مکینوں کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران سرکردہ حریت رہنما محمد اشرف صحرائی اور ایک درجن خواتین سمیت 484 کشمیریوں کو شہید کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں نے ان میں سے زیادہ تر افرادکو علاقے کے طول و عرض میںمحاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست شہیدکیا۔رپورٹ میں راجیہ سبھا میں بھارتی وزارت داخلہ کے ان دعوﺅں کو مسترد کیاگیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد 5 اگست 2019 سے 30 نومبر 2021 تک کشمیر میں 366 عسکریت پسند،96 شہری اور 81 بھارتی فورسز کے اہلکار اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا جاتا ہے اور پھر انہیں مجاہدین یا ان کے معاونین کا جھوٹا لیبل لگا کر شہید کیاجاتا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والی ان شہادتوں کی وجہ سے 31 خواتین بیوہ اور 80 بچے یتیم ہو گئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ علاقے میں پرامن مظاہرین پر بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے گولیوں، پیلٹز اور آنسو گیس کے گولوں سمیت طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 2000 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔فوجیوں نے 1047 سے زائد مکانات اور عمارات کو نقصان پہنچایا اور 118 خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ اس عرصے کے دوران بھارتی فوجیوں، پولیس اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اہلکاروں نے مقبوضہ علاقے میں گھروں پر چھاپوں اور10,500 سے زیادہ محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران حریت رہنماﺅں، سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں، علمائے دین، صحافیوں، تاجروں، وکلائ، سول سوسائٹی کے ارکان، نوجوانوں،طلبائ،عمر رسیدہ خواتین اور لڑکیوں سمیت 17ہزار سے زائد افراد کومختلف کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا جن میں سے چار ہزار سے زائد افراد اب بھی تہاڑ سمیت بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں نظربند ہیں۔ ان میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز محمد اکبر، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد ڈار، امیر حمزہ، محمد یوسف میر، محمد رفیق گنائی، فیروز احمد خان، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ظہور وٹالی ،سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، انجینئر رشید، حیات احمد بٹ، خرم پرویز اور آصف سلطان شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سینئر حریت رہنما سید علی گیلانی گھر میں نظربندی کے دوران انتقال کر گئے جبکہ میر واعظ عمر فاروق سرینگر میں مسلسل نظربند ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 05 اگست 2019 کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار ہے اوراس اقدام کا مقصد مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے ان کی شناخت چھین لینا ہے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانے میں مصروف ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے ہزاروں بھارتی شہریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے بھارتی منصوبوں کا مقصدمستقبل میں جموں و کشمیر میں ممکنہ رائے شماری کے نتائج کوبھارت کے حق میں تبدیل کرنا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری عوام علاقے میںآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے بھارتی منصوبوں کی مزاحمت کے لیے پرعزم ہیں۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں آزادی صحافت کو مسلسل خطرہ لاحق ہے جہاں صحافیوں کو کشمیر کی زمینی صورتحال اور سچائی کو رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور انہیں کالے قوانین کے تحت ہراساں اور نظر بند کیا جارہا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ فسطائی مودی فوجی محاصرے کے ذریعے آزادی کے لئے کشمیریوں کی آواز کوخاموش نہیں کر اسکتے اور وہ بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری کو مظلوم کشمیریوںکو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لیے بھارت کومقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنا فوجی محاصرہ ختم کرانے پر مجبور کرنا چاہیے۔