بھارت

متنازعہ وقف ترمیمی بل ، جمہوری اقدار اورمسلمانوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، مولانا ارشد مدنی

نئی دلی:جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے متنازعہ وقف ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے تمام جمہوری اقدار اورمسلمانوں کے آئینی حقوق کو پامال کرتے ہوئے وقف بل کومنظوری کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کرنے کی مذمت کی ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق مولاارشد مدنی نے نئی دلی میں جمعیت علمائے ہند کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس ترمیمی بل پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ا نہوں نے کہاکہ ان ترامیم کے ذریعے مودی حکومت مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کی حیثیت کو بدلنا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کر کے وقف بورڈ کی حیثیت ختم کی جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دفعہ 3 کے تحت وقف جائیداد کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقف بورڈ کرتا تھا، لیکن اب یہ اختیار کلکٹر کو دے دیا گیا ہے، اور مزید ترمیم میں کلکٹر کے بجائے کسی اعلیٰ سرکاری افسر کو انکوائری کا حق دیا گیا ہے۔ جب تک وہ رپورٹ نہ دے، اس جائداد کو وقف نہیں مانا جائے گا، خواہ اس میں برسوں لگ جائیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ وقف بائی یوزر ضابطہ کو مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد بحال تو کیا گیا لیکن اس میں ایک سازش کے تحت شامل کر دیا گیا ہے کہ اگر کسی وقف جائیداد پر تنازعہ یا مقدمہ ہو، تو حکومت اس پر حق دعویٰ کر سکتی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے نئی دلی کی 123جائیدادوں سمیت کئی وقف املاک وقف بائی یوزر کے زمرے سے نکل جائیں گی اور مسلمانوں کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت نے مسلم تنظیموں اور اپوزیشن کی تجاویز کو نظرانداز کر کے اس بل کی منظوری کی سفارش کی ہے ، جو غیر جمہوری اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی ہے۔ مولانا ارشدمدنی نے مودی حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مفاد پرستی اور بزدلی کا ثبوت دیاہے اور مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے حکومت کو مجبور نہیں کیا ۔ انہوں نے ان جماعتوں کو خبردار کیا کہ وہ اس ایکٹ کو پارلیمنٹ میں منظوری سے روکنے کے لیے اقدامات کریں، بصورت دیگر انہیں نتائج بھگتنا پڑیں گے۔مولانا مدنی نے اعلان کیا کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو جمعیت علما ئے ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریگی اور وقف املاک کے تحفظ کے لیے جمہوری و دستوری ذرائع اختیار کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے اور ان کی اربوں کھربوں کی جائدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اس نے پہلے طلاق، نفقہ اور یکساں سول کوڈ جیسے معاملات میں کیاہے۔ اجلاس کے شرکا نے ملک میں بڑھتی فرقہ واریت، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، یکساں سول کوڈ کے نفاذ، عبادت گاہ ایکٹ کے باوجود مساجد کے خلاف جاری مہم اوردیگر اہم مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور اہم فیصلے کیے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button