مقبوضہ جموں و کشمیر

ٹویٹر نے بھارت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تنقیدی مواد کو ہٹانے کے احکامات کو چیلنج کردیا

e8d0b85a-7405-429c-90f0-b05d349127afاسلام آباد 12جولائی (کے ایم ایس )معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر نے بھارتی حکومت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تنقیدی مواد کو ہٹانے کے احکامات کوعدالت میں چیلنج کردیا ہے۔ بنگلور میں کرناٹک ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ٹویٹر کی پٹیشن میں بھارتی حکومت کی جانب سے کمپنی کے مواد کو ہٹانے اور درجنوں اکائونٹس بلاک کرنے کے حالیہ حکم کو چیلنج کیا گیاہے۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق ٹویٹر نے اس حکم کے خلاف عدالت سے ریلیف کی استدعا کی ہے۔حال ہی میں کوواشنگٹن پوسٹ کے اداریہ میں ادارتی بورڈ نے اس رائے کا اظہار کیاتھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کچھ عرصے سے آن لائن آزادی اظہار رائے پر پابندیاں عائد کر رہی ہے، جس کا اظہار گزشتہ سال کے ایک قانون کی منظوری سے ہوتا ہے جس میں ایگزیکٹوبورڈ کے سنسرشپ اختیارات میں توسیع کی گئی ہے۔مذکورہ قانون کے تحت حکومت خبریں اور معلومات فراہم کنندہ سے کچھ مواد کو36گھنٹوں کے اندر ہٹانے کا مطالبہ کر سکتی ہے اور حکومت کی عدم عدولی کی صورت میں ملک میں موجودکسی بھی مقررہ کمپنی کے شکایت افسر کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ اسے قانون کے تحت ٹویٹر کے اعلی ایگزیکٹو کو ایک ریاست میں پولیس کی تشدد آمیز ویڈیو کو ہٹانے سے انکار پر طلب کیا۔ ویڈیو میںمسلح اہلکاروں کوکمپنی کے دفاتر میں معاملے کی تحقیقات کے بہانے سے داخل ہوتے دکھایا گیا ۔کمپنی نے جغرافیائی طور پر پوسٹ اوپینینز کنٹریبیوٹر رانا ایوب کے ساتھ ساتھ ایڈوکیسی آرگنائزیشن فریڈم ہائوس سمیت لکھاریوں کے ٹویٹس کو محدود کر دیا ہے۔اس فیصلے نے ٹویٹر کو ایک مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ ایک جانب مقامی قوانین اقدار کی عکاسی نہیں کرتے اور دوسری طرف عملہ کی سلامتی خطرے میں ہے۔ ٹویٹر کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے قانون کی اجازت سے زیادہ ٹویٹس کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ پلیٹ فارم کا یہ بھی دعوی ہے کہ حکام اپنے مطالبات کا جواز فراہم کرنے یا اپنے پہلے اٹھائے گئے اقدامات کو واپس لینے میں ناکام رہے ہیں۔پوسٹ نے کہا کہ یہ کیس، بنیادی طور پر آزمائشی کیس ہے کہ آیا بھارت میں آزادی اظہار پنپ سکے گی یا نہیں۔ جبکہ غیر منصفانہ قانون کا بلاجواز اطلاق کرکے کمپنی کے لیے اظہار رائے کے تحفظ کو ناممکن بنا دیاگیا ہے، اور یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ عدلیہ اس کے تحفظ کے لیے قدم اٹھائے گی۔ یہ لڑائی صرف ٹویٹر کی نہیں اور نہ صرف بھارت کے بارے میں ہے بلکہ بعض ممالک پہلے ہی ہندوستان کے نظرثانی شدہ قوانین کی طرز پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں اوربعض اس پر غور کر رہے ہیں۔ایک اور مضمون میں، نیویارک ٹائمز نے کہاہے کہ ٹوئٹر کومودی حکومت نے شہری آزادیوں، مظاہروں، پریس کی آزادیوں اور حکومت کی جانب سے وبائی مرض سے نمٹنے پر تنقید سے متعلق شکایات کو ہٹانے کے لیے کہا تھا۔ ماہرین نے کہا کہ ہندوستانی حکومت کا ٹویٹر کو اکانٹس اور پوسٹس کو بلاک کرنے پر مجبور کرنے کا اقدام سنسرشپ کے مترادف ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button