خصوصی رپورٹ

بھارت مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کیخلاف ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے: سٹوک وائٹ

poster1لندن 24اگست(کے ایم ایس)برطانیہ میں قائم آزاد تحقیقاتی فرم سٹوک وائٹ انویسٹی گیشنزنے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ منظم بدسلوکی کی پریشان کن صورتحال کی منظر کشی کرتے ہوئے کہاہے کہ مودی کی فسطائی بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف تنقید آوازوں کو بلند ہونے سے روکنے کیلئے مختلف قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرر ہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سٹوک وائٹ نے ”کشمیر میں صحافت پر قدغن اور انسانی حقوق ”کے عنوان سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہاہے کہ قانونی فرم نے 2020اور 2021کے درمیان کشمیریوں کی کم از کم 2000 شہادتیں مرتب کی ہیں،جن میں لوگوں نے بھارت کو مقبوضہ علاقے میں ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگیوں ، اغوا ، ظلم و تشدد اور جنسی تشدد سمیت مختلف جرائم کا ذمہ دار قراردیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران سنگین نوعیت کے2ہزار سے زیادہ کیسزکو دستاویزی شکل دی گئی جن میںظلم و تشدد کے 450واقعات، پیلٹ گن سے زخمی ہونے والے15سو افراد، جبری گمشدگیوں کے 100اور جنسی تشدد کے 30واقعات شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر آٹھ اعلی فوجی حکام مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔سٹوک وائٹ کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے والے خلیل دیوان اور ناصر قادری نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں نافذ کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں کو کشمیریوںکے قتل عام اورانسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر استثنیٰ حاصل ہے ۔تقریبا تین دہائیاں گزرنے اور ٹھوس شواہد کی موجودگی کے باوجودانسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث بھارتی فورسز کے کسی ایک بھی اہلکار کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔ بھارتی پولیس اور فوج دونوں متاثرہ افراد کو اپنے اہلکاروں کے جرائم کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشنوں میںمقدمات درج کرانے سے روکتے ہیں۔جنوری میں سٹوک وائٹ نے بھارت کے وزراء اوراعلیٰ حکام کے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے بارے برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کے وار کرائمز یونٹ کو شواہد پر مبنی ایک دستاویز حوالے کی تھی۔ خلیل دیوان اور ناصر قادری نے واضح کیا ہے کہ بھارت کس طرح اپنے قانونی نظام خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کو تنقیدی آوازوں کو دبانے اورآزادی اظہار رائے سے متعلق امور کو مجرمانہ بنانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ رپورٹ میں تین صحافیوں سجاد گل، فہد شاہ اور آصف سلطان کے مقدمات کو بھی اجاگر کیاگیا جنہیں 2018سے 2022کے درمیان مختلف مواقع پر جیل میں قید کیاگیا ۔ اگرچہ بھارتی عدالتوں نے ابھی تک انہیں کسی سنگین جرائم کا مجرم نہیں ٹھہرایا ہے لیکن انہیں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیاگیا ہے اور صحافیوںکے خلاف کالے قانون کے نفاذ پر انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مودی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ناصری قادری نے کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں میڈیا پر قدغن عائد ہے اور اگست 2019میں مودی حکومت کی طرف سے دفعہ370اور 35A کی منسوخی کے بعد سے اس قدغن میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button