بلقیس بانو کا 20 سالہ انتظار، انصاف میں تاخیر نے بھارتی عدالتی نظام پر اعتماد ختم کردیا
نئی دہلی20 دسمبر(کے ایم ایس)سول سوسائٹی، قانونی ماہرین، خواتین کارکنوں اور متعدد مسلم رہنمائوں نے بلقیس بانو کیس کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے 17 دسمبر کو گجرات فسادات کی شکار بانو کی طرف سے دائر نظرثانی کی عرضی کو مسترد کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے ۔
اجتماعی عصمت دری کی متاثرہ بلقیس بانو نے سپریم کورٹ سے گجرات حکومت کے فیصلے جس میں گیارہ مجرموں کی سزائوں میں کمی کی گئی تھی ، کی نظر ثانی کی درخواست کی تھی ۔ بھارت میں انصاف کے نظام نے مسلمانوں کو بار بار احساس محرومی، دھوکہ دہی اور مایوسی سے دو چار کیا ہے۔ بلقیس بانو کی درخواست پر عدالتی فیصلہ سے بھارتی مسلمانوں کو ایک بار پھر مایوسی ہوئی ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لینے والے مرزا وردہ بیگ نے کہا ہے کہ عصمت دری انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ صرف بلقیس بانو بمقابلہ گیارہ مجرموں کا نہیں ہے بلکہ یہ بلقیس بمقابلہ ریاستی مشینری ہے۔ انہوں نے ریاستی مشینری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عدالت نے درخواستوں کو نہ صرف سردمہری سے نظر انداز کیا بلکہ ان مجرموں کو جھوٹی بنیادوں پر قبل از وقت رہائی بھی دے دی۔
ایک سماجی کارکن آصف مجتبی نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے نہ صرف بلقیس بانو کی طرف سے دائر درخواست کو بلکہ اس ملک کی مسلم اقلیت کی امنگوں کو بھی کچل دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی سپریم کورٹ کی رہی سی ساکھ پر سوالیہ نشان بن چکے ۔انہوں نے مزید کہا کہ "اس ناانصافی کے خلاف لڑنے والے طلبا رہنما برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں لیکن عصمت دری کرنے والے اور قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔
اسٹوڈنٹس یونین کی صدر ندا پروین جے اے نے کہا کہ بھارت میں فوجداری انصاف کا نظام روز بروز یہ آواز بلند کر رہا ہے کہ ہمارا ”وجود خارجی ہے”۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ کی جانب سے بلقیس بانو کی نظرثانی کی درخواست کو خارج کرنے اور کیس کی سماعت میں عدالت کی ‘چڑچڑاپن’ نے ہمیں ہندوتوا کے غنڈوں اور نظام انصاف دونوں کی طرف سے ہراساں کرنے کے اور بھی کمزور پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ”بھارت میں مسلمانوں کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے ہمارے راستے میں امن و امان کی بجائے مزید ظلم ہوتا ہے”۔
دہلی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ سواتی مالیوال نے اسے ٹویٹر پر لیا اور پوچھا: "جب لوگوں کو سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملتا تو وہ کہاں جائیں”۔
ٹویٹر پر اپنی شناخت ایک سیاسی مبصر کے طور پر بتانے والے ایک ٹوئٹر صارف ہارون خان نے لکھا، یہ صرف بلقیس بانو کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کی ہر اس خاتون کے لیے دھچکا ہے جو آج انصاف کی تلاش میں ہے۔