کشمیری تارکین وطن

ڈاکٹر فائی نے بھارتی مندوب کی دھوکہ بازی اورجھوٹ کو بے نقاب کردیا

واشنگٹن : ورلڈ فورم فار پیس اینڈ جسٹس کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نتیش بردی کے جموں و کشمیرکے بارے میںدعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے جن میں کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کے لئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے لئے کہاگیا ہے۔
ڈاکٹر غلام نبی فائی نے واشنگٹن میں جاری ایک بیان میں کہا کہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں مانا جا سکتا ہے کیونکہ تمام بین الاقوامی معاہدوں کے تحت جن پر بھارت اور پاکستان دونوں نے اتفاق کیا ہے اور اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے ان کی توثیق کی ہے، کشمیر کا تعلق اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک سے نہیں ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو کشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کا دعوی درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے 8جولائی 2019کو کہا تھا”کہ بھارت اور پاکستان کو کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت دینا چاہیے۔ انہوں نے کہاتھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے تمام مذاکرات میں کشمیری عوام کو شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکشمیریوں کو حق خود ارادیت کیوں دیا جائے اگر یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہوتا؟”ڈاکٹر فائی نے کہاکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 10اگست 2019کوکیوں کہا تھاکہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ہیلن کلارک نے 15اکتوبر 2004کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہے کہ کشمیربھارت اورپاکستان کے درمیان کشیدگی کا ایک فلیش پوائنٹ ہے۔ زیادہ تر ممالک اسے محض اندرونی معاملہ نہیں سمجھتے۔ اقوام متحدہ میں بھارتی مندوبین کو بھارت کے ایک اور معزز سفارت کار اور برازیل میں بھارت کے سابق سفیر بیرسٹر مینو مسانی کی تحریر کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا مضمون یکم اگست 1990کو بھارتی شہر بنگلورسے شائع ہونے والے” دلت وائس”میں شائع ہوا تھا۔ سفیر مسانی نے لکھا”کہ ایک خاتون نے مجھ سے پوچھاکہ گورباچوف سوویت یونین سے لتھوینیا کی آزادی کے مطالبے سے کیوں متفق نہیں ہوں گے؟’میں نے جواب دیاکیا آپ کو یقین ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے؟اس نے کہاجی ہاں، بالکل۔میں نے کہاکہ اسی طرح ایسے بہت سارے روسی ہیں جو غلطی سے لتھوینیا کوسوویت یونین کا حصہ مانتے ہیں جس طرح کہ آپ سمجھتی ہیں کہ کشمیر بھارت کاحصہ ہے۔ ایک ممتاز بھارتی دانشور اروندھتی رائے نے یہ کہہ کر اس کی تصدیق کی کہ کشمیرحقیقت میں کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ کشمیربھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔برطانوی تھنک ٹینک چے تھم ہائوس کے رابرٹ بریڈنک نے 26مئی 2010کو ایک سروے جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ وادی کشمیرکے 74فیصد سے 95فیصد لوگ آزادی چاہتے ہیں۔جب ڈاکٹر جے شنکر نے 2اگست 2019کو بنکاک میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی تو انہوں نے ان سے کہا کہ کشمیر پر کوئی بھی بات چیت صرف پاکستان کے ساتھ اور صرف دو طرفہ ہوگی(دی ٹائمز آف انڈیا، 3اگست 2019)۔ مندرجہ بالا حوالہ جات دینے کے بعد ڈاکٹر فائی نے کہاکہ ہمیں یاد ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے G20وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مودی کو گاندھی کے دانشمندانہ مشورے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے اصل حکمران اس کے لوگ ہیں نہ کہ اس کے مہاراجہ۔ ڈاکٹرفائی نے امریکہ سمیت عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ اس بات کا ادراک کریں کہ آج مسئلہ کشمیر سے بڑھ کر کوئی بھی مسئلہ اہم اور تشویشناک نہیں ہے جہاں دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔صرف کشمیر ہی وہ مسئلہ ہے جس نے بھارت اور پاکستان کو اپنے تعلقات کو معمول پر لانے سے روک رکھا ہے اور یہ واحد مسئلہ ہے جس کی وجہ سے تین جنگیں ہوچکی ہیں، سب سے زیادہ فوجی جمائو اورجوہری ہتھیاروں کا حصول ممکن ہوا ہے اور یہ تنازعہ کشمیر ہی ہے جس نے بھارت اور پاکستان کو ایٹمی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی مداخلت ضروری ہے۔اگر اب نہیں توپھر کب؟

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button