بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں دیگر بنیادی حقوق کیساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی سلب کررکھی ہے
اسلام آباد:آج جب دنیا بھر میں ”عالمی یوم مذہب “ منایا جا رہا ہے، بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دیگر بنیادی حقوق کیساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی سلب کر رکھی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج کے دن کے حوالے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اگست 1989میں ایک فوجی آپریشن کے دوران تاریخی جامع مسجد سرینگر کی بے حرمتی، نومبر 1993میں بدترین فوجی محاصرے کے دوران درگاہ حضرت بل کی بے حرمتی اور مئی 1995میں چرار شریف کو نذر آتش کرنا بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں مذہبی آزادی کی پامالی کی چند واضح مثالیں ہیں۔ علاوہ ازیںقابض بھارتی حکام نے05اگست 2019کو مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدام کے بعد کشمیری مسلمانوں کو مسلسل تین برس تک جامع مسجدسرینگر میںنما ز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ گزشتہ برس مسلمانوں کے لیے مقدس ترین رات شب قدر اورعید کے موقع پربھی جامع مسجد میں نماز اداکرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔بھارتی فوج کے ایک افسر کی قیادت میںفوجی اہلکار 23 اور 24جون 2023کی درمیانی رات کو ضلع پلوامہ کے علاقے زڑور ہ کی جامع مسجد میں گھس گئے اور نمازیوں کو لاﺅڈ اسپیکرپرہندو نعرہ ”جے شری رام“ لگانے پر مجبور کیا۔
یہ تمام ہتھکنڈے نہ صرف مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہیں بلکہ بھارت کشمیری مسلمانوں کو دینی فرائض سے دور رکھ کر انہیں ذہنی اذیت کا شکار بنا رہا ہے۔
2013 میں بھارتی فوجیوں کی طرف ایک مسجد اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے ایک دلخراش واقعے کی ویڈیوز وائرل پر جب کشمیری مسلمانوں نے احتجاج کیا تو قابض اہلکاروں نے ان پر گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں چار مظاہرین شہید ہوگئے۔
کشمیر ی علماءاور آئمہ کو اکثر بغیر کسی الزام کے نظربند کیا جاتا رہا ہے۔ 2022 میں مولانا عبدالرشید داو¿دی، مولانا مشتاق احمد ویری، فہیم رمضان اور غازی معین الاسلام 7 سرکردہ مذہبی رہنماو¿ں کو مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرکے جموں خطے کی جیل بھیج دیا گیا۔مولانا سرجان برکاتی کو 16 ستمبر 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔ 05 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام سے قبل مودی حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی اور تنظیم کے تقریباً 300 ارکان کو گرفتار کر لیا تھا جن میں تنظیم کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض بھی شامل تھے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینر رہنما میر عمر فاروق اور دیر علماءکو بھی اکثر گھروں میں نظر بند رکھ کر انہیں نماز جمعہ کیلئے مسجد جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔