بابری مسجد کے مقام پر متنازعہ رام مندر کا افتتاح اور مودی
محمد شہباز:
فسطائی مودی نے ایودھیا میں شہید کی جانے والی05 سو سالہ پرانی بابری مسجد پر بننے والے متنازعہ رام مندر کا افتتاح 22جنوری کو یہ کہہ کیا ہے کہ بھگوان نے اس سے تمام لوگوں کی نمائندگی کا ذریعہ بنایا ہے۔حالانکہ یہ سیاسی حربے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔مندر ابھی زیر تعمیر ہے مگر مودی اور اس کی BJP نے ادھورے مندر کا افتتاح کرنا اپنے لیے ناگزیر قرار دیا تھا،یعنی زندگی اور موت کا مسئلہ ۔
ذرا سا عقل و فہم رکھے والا انسان بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ رام مندر کا افتتاح مودی کی BJP رواں برس ہونے والے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں سیاسی فائدے کیلئے مذہب کارڈ استعمال کر رہی ہے۔بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کئی دہائیوں سے BJP کی انتخابی مہم کا حصہ رہی ہے۔ایودھیا میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کو ہندو انتہا پسند وں نے 6 دسمبر 1992 میں شہیدکیا تھا۔مودی متنازعہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں صرف انتخابات سے قبل ہندوتوا حامیوں کو جوش دلانے کیلئے شریک ہوئے۔جس پر معروف امریکی ٹائم میگزین کا کہنا ہے کہ رام مندر کا افتتاح بھارتی مسلمانوں پر ہندوتوا بالادستی کا سب سے بڑا سیاسی ثبوت ہے۔ ٹائم میگزین کا مزید کہنا ہے کہ رام مندر کا افتتاح بھارتی مسلمانوں کیلئے تاریک دور کی نشاندہی کرتا ہے۔مودی حکومت بھارت سے مسلم یا اسلامی تہذیب کے تمام آثارمٹانے پر تلی ہوئی ہے۔
بھارتی پروفیسر مردولا مکھرجی کا کہنا ہے کہ مودی کی جانب سے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت سیاسی فائدے کیلئے مذہب کا استعمال ہے جو کہ فرقہ پرستی ہے۔وہیںمعروف بھارتی سیاسی مبصر انشیہ واہان وتی کا کہنا ہے کہ بھارتی سیکولرازم زعفرانی سیاست کے پہاڑ کے نیچے دب گیاہے کیونکہ ہندو قوم پرست ایودھیا میں رام مندر کا جشن مناتے ہیں۔کئی ہندو مذہبی سنتوں نے بھی رام مندر کی افتتاحی تقریب میں جانے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ مودی مذہبی رہنما نہیں ہیں لہذا وہ مندر کی افتتاحی تقریب کی قیادت کرنے کے اہل نہیںتھے۔جبکہ کانگریس سمیت بھارت کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے تقریب میں شرکت کے دعوت نامے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیے کہ اسے سیاسی تقریب میں تبدیل کیا گیا ہے۔تامل ناڈو حکومت نے رام مندرکی افتتاحی تقریب لائیو نہ دکھانیکاحکم دیا تھا اور مندروں میں رام پوجا پر پابندی بھی عائد کی تھی۔
دنیا میں ایسا واقعہ پہلی بار رونما ہوا ہے کہ کسی زیر تعمیر عمارت کا اسکی تکمیل سے قبل ہی افتتاح کیا گیا ہو ۔یہ کارنامہ مودی اور اس قبیل کے لوگ ہی انجام دے سکتے ہیںجو بھارت کو تمام اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے پاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس نسلی تطہیر کیلئے بھارت کے تمام ادادروں خاص کر بھارتی سپریم کورٹ اور نچلی عدالتوں کو دھڑلے استعمال کیا جارہا ہے اور پھر بھارت کے ان انصاف کے اداروں پر اپنے کیے پر ندامت اور شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔جس پر مشہور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے مودی حکومت کی نام نہاد ترقیاتی پالیسیوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے بھارت کے سیکولر ہونے کا دعوی بے نقاب کیا ہے۔دی اکانومسٹ کے مطابق مودی کی جانب سے 22جنوری کو 220 ملین ڈالر کا متنازع ہندو مندر کے افتتاح نے بھارتی وزیر اعظم کے سیکولر ہونے کا دعوی جھوٹا ثابت کردیا۔جریدہ مزید اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ بھارت میں مودی کی اسلام مخالف سرگرمیوں پر اسلاموفوبیا کا خدشہ ہے۔کیونکہ لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر کے مندر کی تعمیر سیکولر ذہنیت کے حامل بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ دی اکانومسٹ کا مزید کہنا ہے کہ مودی حکومت جھوٹ کا لبادہ اوڑھے جواہر لال نہرو جیسے لیڈر بننے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ مودی کی جارہانہ پالیسیاں بھارت کی معیشت کے نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ دی اکانومسٹ کہتا ہے کہ آنے والے الیکشن میں مودی حکومت کی ممکنہ جیت سے بھارت میں ہندوتوا کو مزید فروغ ملے گا۔واضح رہے کہ مودی حکومت نے رواں برس الیکشن میں کامیابی کیلئے 1990سے بابری مسجد کو شہید کرنے کی تیاری شروع کی تھی۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے مودی نے بڑے پیمانے پر 2002میں گجرات مسلم کش فسادات شروع کیے اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کوشش کی۔بھارتی نظام عدل کا یہ حال ہے کہ تمام شواہد ہونے کے باوجود گجرات مسلم کش فسادات میں ملوث تمام مجرمان کو با عزت بری کر دیا، بی جے پی کے زیر انتظام کئی ریاستوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف قانون منظور کیا ہے۔
دی اکانومسٹ کے علاوہ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں رام مندرکی افتتاح کو ایودھیا کے مسلمانوں کی تلخ یادیں تازہ ہونے کا نام دیا ہے۔الجزیرہ کا کہنا ہے کہ بھارتی شہرایودھیا میں رام مندر کا افتتاح بڑے فاتحانہ انداز میں کیا گیا ہے جس سے مسلمان رہائشیوں کی تلخ یادیں تازہ ہو گئی ہیں ۔الجزیرہ رپورٹ کے مطابق رام مندر بابری مسجد کی تعمیر کردہ جگہ پر بنایا گیا ہے، بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوں نے 1992 میں شہید کیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے ایودھیا کے رہائشی شاہد نے اپنی دکھی داستان سناتے ہوئے الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس روز بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہوا، ان کے والد کو انتہا پسند ہندوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔اس دل سوز واقعہ کے دوران صرف ان کے والد ہی نہیں بلکہ ان کے چچااور دیگر رشتے دار بھی شہید ہو گئے، شاہد کا مزیدکہنا ہے کہ رام مندر کا افتتاح ہندوں کیلئے اچھا دن ہوگا مگر ہمارا سینہ آج بھی چھلنی ہے، ہم سے ہماری مسجد اور ہمارے رشتے چھین لئے گئے۔شاہد کاکہنا تھا کہ بابر ی مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے مسلمانوں اور ہندوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں، سماجی کارکن اعظم قادری نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے "ہندوسنتوش دوہے” آج بھی مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں، انتہا پسندہندوں اور مودی حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی مساجد ہی نہیں بلکہ عیسائی کے چرچ اور سکھوں کے گوردوارے بھی غیر محفوظ ہیں، ایسے میں بھارت سیکولر ریاست کا جو نعرہ لگاتا ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
تاریخی بابری مسجد کے مقام پر تعمیر ہونے والا مندر بھارت کی نام نہاد جمہوریت پر ایسا سیاہ دھبہ ہے،جو کسی صورت نہیں دھویا جاسکتا۔ بھارت کو ہندو راشٹر بنانا: بی جے پی ہزاروں مساجد کو گرا کر ان کی جگہ مندر بنانا چاہتی ہے۔1992 میں بی جے پی اورآر ایس ایس کی قیادت میں دائیں بازو کے ہندو جونیوں کے ذریعہ بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔نومبر 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایودھیا کے متنازعہ فیصلے نے ثابت کیا کہ ہندوتوا نظریہ بھارت میں انصاف کے تمام اصولوں اور بین الاقوامی قوانین پر فوقیت رکھتا ہے۔مودی کے بھارت میں مسلمان اور ان کی عبادت گاہیں تیزی سے حملوں کی زد میں ہیں۔
مودی اور اس کے حواری بابری مسجد تک ہی خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ بھارت میں مزید درجنوں مساجد ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں ،ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے بھارتی شہر کاشی میں گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سمیت دیگر مساجد کی مسلسل بے حرمتی کی جا رہی ہے،لہذا ان مساجد کو بھی مستقبل میں خطرے کا سامنا ہے۔
پاکستان نے بھارتی شہر ایودھیا میں شہید کی جانے والی بابری مسجد کی جگہ پر متنازع رام مندر کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مندر بھارتی جمہوریت کے چہرے پر دھبہ بنے گا۔ سنہری رنگ کا روایتی لباس زیب تن کئے نریندرمودی نے 50 میٹر طویل مندر کے مرکز میں سیاہ پتھر کی مورتی کی نقاب کشائی کی ۔پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ شہید بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر بھارتی جمہوریت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ صدیوں پرانی مسجد کو 6 دسمبر 1992 میںہندو انتہا پسندوں کے ایک ہجوم نے شہید کیا تھا۔ترجمان نے کہا کہ اعلی بھارتی عدلیہ نے اس گھناونے فعل کے ذمہ دار مجرموں کو بری کیا تھا، بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی بھی اجازت دینا افسوسناک ہے۔ ترجمان کاا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں ہندوتوا کی بڑھتی سوچ مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے، عالمی برادری کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کا نوٹس لینا چاہئے ۔مودی نے رام مندر کا افتتاح تو ضرور کیا لیکن یہ افتتاح بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔کیونکہ بھارت جس تیزی کیساتھ ہندو انتہا پسندی کے گڑھے میں گرتا جارہا ہے ،وہ گڑھا ہی بھارت کی تباہی و بربادی کا باعث بنے گا۔