20ویں صدی کے عظیم شاعر، فلسفی اور سیاسی مفکر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا 147 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے۔حکیم الامت کا لقب پانے والے شاعر مشرق نے نوجوانوں میں خودی کا جذبہ پیدا کیااور قوم کو بیداری کا سبق دیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے تحریک آزادی کشمیر قیام پاکستان کی تحریک کا ہی تسلسل ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی روشنی کی کرن کوئی اور نہیں بلکہ مملکت خداداد پاکستان کے روحانی قائد علامہ محمد اقبال ہیں۔ اپنی آخری عوامی تقریر میں شیخ عبداللہ شاعر مشرق کو کچھ ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں: "اس صدی کے آغاز میں علامہ اقبال نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کیا، جب ہر طرف جہالت اور غربت تھی، انہوں نے خدا سے لوگوں کے دلوں میں انقلاب کا شعلہ بھڑکانے کی دعا کی۔جس دعا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ ساقی نامہ کی مندرجہ ذیل اختتامی سطور میں موجود ہے جوشاعر مشرق نے نشاط باغ سرینگر میں 1921 میں اپنے پہلے دورہ مقبوضہ وادی کشمیر کے دوران لکھی تھی۔ نظم کا محاورہ یہ ہے:توڑ اس دست جفا کیش کو یارب ،جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا۔
شاعر مشرق نے اپنی شاعری کو اپنے دور کی تحریک آزادی خاص طور پر برطانوی نوآبادیاتی دور کے بھارتی مسلمانوں کی زندگی اور جدوجہد کے تناظر میں مجموعی سیاسی بیانیہ کو متاثر کرنے والے موضوع میں نہ صرف تبدیل کیا بلکہ بھارتی مسلمانوں کی معاشی حالت زار کے بارے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کو اہم خطوط لکھ کر انہیں ہم وطنوں کی معاشی اور سماجی تقدیر بدلنے کی طرف راغب بھی کیا۔علامہ اقبال کا دل کشمیری مسلمانوں کی غلامی سے بہت رنجیدہ تھا جنہیں بھارتی حکمران صدیوں سے ایک حقیر مخلوق سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنی انقلابی اور دل آویز نظموں کے علاوہ کچھ عرصہ کشمیر کمیٹی لاہور کے صدر کی حیثیت سے بھی تحریک آزادی کشمیر میں اہم سیاسی کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال ہی کے دور میں برطانوی مینڈیٹ کے تحت فلسطین کی غلامی اور فلسطین میں یہودیوں کے علیحدہ وطن کیلئے برطانوی حمایت یافتہ صیہونی تحریک کا عروج ایک اور افسوسناک پیش رفت تھی اور فلسطینیوں کے قتل عام اور بے گھر ہونے پر یقینا علامہ اقبال جیسا شاعر، فلسفی اور سیاسی مفکر اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا تھا۔ اس ساری صورتحال میں علامہ اقبال اورقائد اعظم محمد علی جناح کے افکار کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
آج یہ بات ناقابل یقین محسوس ہو سکتی ہے کہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دور حکومت میں گائے ذبیحہ کرنے کی سزا موت تھی۔ ایک بزرگ مسلمان اور بچوں سمیت اس کے خاندان کے سترہ افراد کو گورنر کی موجودگی میں گائے کے ذبیحہ کے شبہ میں زندہ جلا دیا گیا۔ 1924 میں تحصیل پلوامہ کے ایک گاوں میں ایک بچے نے شہتوت کے درخت کی ایک شاخ توڑ دی اور اس طرح وہ اپنے والد کی موت کا سبب بن گیا جس سے شدید مار پیٹ اور سر پر چوٹیں ماری گئیں تھیں۔ڈوگرہ استبداد کے تحت کشمیری عوام کی بدحالی کیلئے علامہ اقبال کی سرگرم فکر لاہور میں ان کے زمانہ طالب علمی سے ہے۔ وہ انجمن کشمیر مسلمین لاہور کے جنرل سیکرٹری بنے اور کشمیر میگزین میں باقاعدگی سے اپنے دستخط کیساتھ ساتھ گمنام تحریریں بھی شائع کرتے رہے۔ اپنی ایک نظم میں انہوں نے کشمیری عوام سے "لفظ کشمیر کے حروف (ک، ش، م اور ر)کی طرح متحد ہونے کی اپیل کی” اور دوسری نظم میں انہوں نے مشاہدہ کیا:”ظلم اور جہالت کے چنگل نے ہمیں پست کر دیا ہے۔