مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مودی کی متنازعہ مردم شماری اور اہل کشمیر
محمد شہباز :
05اگست2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کیساتھ ہی مودی اور BJPکے انتہاپسندوں نے جہاں اہل کشمیر کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے اور یہاں نگرانی کے نام پر یکے بعد دیگرے ایسے قوانین کا نفاذ عمل میں لانے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں ،ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد اور مدعا نہیں ہے کہ کشمیری عوام کو اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بناکر انہیں محتاج بنایا جائے کہ پھر ان میںسر اٹھا کر جینے کی ہمت ہی نہ رہے۔05اگست2019 میں انسانیت سے عاری اقدامات کے بعد جو سب سے پہلا وار یا حملہ کیا گیا وہ ریاستی قوانین میں تبدیلی کرکے غیر ریاستی باشندوں کیلئے ڈومیسائل کا اجرا اور پھر ان بھارتیوں کیلئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جائیداد کی خرید وفروخت کیلئے بھی راہ ہموار کی گئی۔حلقہ بندیوں کے نام پر مقبوضہ وادی کشمیر کو جموں کے مقابلے میں اسمبلی نشتوں میں کمی جبکہ جموں کی نشتوں میں اضافہ مستقبل کی پیش بندی اور منصوبہ سازی کی جانب وضاحت کیساتھ نشاہدہی ہے کہ مودی اور اس کے حواری مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق کس قدر مذموم اور خطر ناک عزائم رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی کئی سارے اقدامات ہیں جو طشت ازبام ہورہے ہیں۔
اب مقبوضہ جموں وکشمیر میں مردم شماری کے نام پر ایک گھناونا کھیل شروع کیا گیا ہے،جس کا مقصد اہل کشمیر کو مکمل طور پر دیوار کیساتھ لگانا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس نے کشمیری عوام کے غیر ملکی دوروں کی تفصیلات سمیت ذاتی کوائف جمع کرنے کیلئے ایک جامع مردم شماری کا سلسلہ شروع کی ہے۔ اس اقدام کی قانونی اورآئینی حیثیت اورممکنہ غلط استعمال کے بارے میں اہل کشمیر میں شدید خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ پہلے تو مردم شماری میں پولیس کی شمولیت ہی قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ موجودہ قانونی فریم ورک سے متصادم ہے۔ اگرچہ مردم شماری کے ترمیم شدہ قوانین محققین کو مائیکرو ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اسے صیغہ راز میں رکھا جائے اور حساس وذاتی معلومات کے استعمال پر پابندی ہو۔ لہذا قانونی ماہرین کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں پولیس کی حالیہ کارروائیاں ان قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی ہیں۔ مقبوضہ وادی کشمیر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بھارتی پولیس افسران گھر گھر جا رہے ہیں، فارم تقسیم کر رہے ہیں اور رہائشیوں سے ذاتی معلومات فراہم کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ پولیس کی طرف سے تقسیم شدہ فارموں میں خاندان کے سربراہ، علاقے سے باہر رہنے والے خاندان کے افراد، ان کی عمر، رابطے کی تفصیلات، گاڑیوں کی رجسٹریشن، گھر میںنصب کئے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کے بارے میں معلومات اوراہلخانہ کے کوائف طلب کئے گئے ہیں۔مردم شماری کے نام پر آپریشن میں شفافیت کے فقدان نے کشمیری عوام کو پریشان کیا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ آپریشن کس قانون کے تحت کیا جا رہا ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ مختلف پولیس تھانوں کی طرف سے تقسیم کیے گئے فارموں پر مردم شماری 2024کا عنوان ہے اور ان فارموں پر متعلقہ پولیس تھانے یا پولیس چوکی کے نام کا لیبل بھی لگا ہوا ہے۔ اگرچہ مختلف پولیس تھانوں کی طرف سے تقسیم کردہ فارمز میں تھوڑا فرق ہے، لیکن لوگوں سے طلب کی گئی معلومات ایک جیسی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کوائف جمع کرنے سے مقبوضہ خطے میں تشویش پیدا ہوئی ہو۔گزشتہ برس بھی اسی طرح کا ایک مردم شمار ی فارم سرینگر میں تقسیم کیا جاچکا تھا جس کے بعد بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں پر سیاسی پروفائلنگ کے الزامات لگے۔ اس سے قبل جموں میں کچھ لوگوں نے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ایک پرائیویٹ ایجنسی کے اہلکاروں کی طرف سے کرائی گئی اسی طرح کی مردم شماری کی مخالفت کی تھی۔ نومبر 2023میں ایک علاقے کے لوگوںنے جموں میونسپل کارپوریشن کے اہلکار ہونے کا دعوی کرنے والے افرادکو روکا اور بھگا دیا۔ اس واقعے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا گیا جس میں اس طرح کے کوائف جمع کرنے کی حساسیت کو اجاگر کیا گیا۔ 1990کی دہائی میں بھارتی افواج اور بارڈر سیکیورٹی فورس BSFتمام کشمیریوں کے کوائف جمع کرنے اور عسکری تحریک کیساتھ منسلک افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی غرض سے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے گھر گھر جا کر سروے کرتی تھی۔بھارتی پولیس نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی نگرانی کیلئے کئی ونگ قائم کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک سیکشن ڈائل 100صحافیوں کا پس منظر معلوم کرنے کیلئے کام کرتا ہے جس میں میڈیا میں ان کے پورے پیشہ ورانہ کیریئر کی تفصیلات معلوم کرنا ، ان کے ادارے کا نام، خاندانی تعلقات، غیر ملکی سفر وغیر ہ شامل ہیں۔ تاہم یہ پہلی بار ہے کہ بھارتی ایجنسیوں کی جانب سے وسیع اور منظم طریقے سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی پوری آبادی کے کوائف جمع کئے جارہے ہیں۔ ماہرین اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مردم شماری 2024کے طریقہ کار پر سخت تنقید کی ہے اور اسے پولیس کے اختیارات سے غیر آئینی تجاوز اورزیر نگرانی ریاست قراردیا ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میںمردم شماری کی نئی مشق کے نا پر جو کھیل کھیلا جانے لگا ہے،اس کا مقصد کشمیری عوام کو مزید زیر کرنا ہے۔کشمیری عوام5 اگست 2019 سے فسطائی مودی حکومت کی طرف سے ان کی نگرانی اور دہشت زدہ کرنے کیلئے باقاعدگی سے ان کی رازداری کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ڈیٹا پروٹیکشن کے ماہرین اورشہری حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں”مردم شماری 2024″ پولیس اختیارات میں غیر آئینی توسیع اور نگرانی ریاستی سطح پر تشکیل ہے۔ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا چیپٹر کے سربراہ آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے بغیر کسی وضاحت کے ذاتی تفصیلات طلب کرناکشمیری عوام کے حقوق اور وقار کے منافی اور ظالمانہ رو یہ ہے۔آکار پٹیل کا مزید کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری خاندانوں کو مضحکہ خیز اور ذلت آمیز دستاویزات بھیج کر ان کے پرائیویسی اور وقار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔بھارتی ڈیٹا پروٹیکشن ماہر اوشا رامناتھن کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں پولیس کی ‘مردم شماری’ نے ریاست کو شہریوں کی زندگیوں کے بارے میں ہر فرد کے 360 ڈگری نقطہ نظر کے ساتھ ایسی رسائی دی ہے،جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ریاست ذاتی معلومات کو غیر معمولی تفصیلات کے ساتھ جمع کررہی ہے جس سے ہر فرد کا انفرادی پروفائل تیارکیاجاسکتا ہے۔ اوشا رامناتھن اس کاموازنہ متنازعہ آدھار سسٹم سے کرتے ہیں جو رضاکارانہ شناختی کارڈ پروگرام کے طور پر شروع کیاگیا لیکن بعد ازاں لازمی قراردیاگیاجس سے متعدد مسائل اور رازداری کے خدشات پیدا ہوئے۔ اوشا رامناتھن نے پولیس کے زیراہتمام ہونے والی مردم شماری پر سوال اٹھایاکہ ریاست کا کون سا جائز مقصد اس طرح کے جامع اقدام کا جواز پیش کر سکتا ہے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کے ممکنہ استعمال کے بارے میں معلومات کے فقدان پر تنقید کی۔انہوںنے استدلال کیا کہ اس آپریشن سے ایک مداخلت کرنے والا نگرانی کا طریقہ کار بنایاگیا جس سے ریاست کو شہریوں کی زندگیوں کے ہرپہلو تک رسائی فراہم ہوگی۔
مقبوضہ جموں وکشمیرمیں پولیس کی طرف سے پروفائلنگ کا اس کے علاوہ اور کیا مقصد ہوسکتا ہے کہ اہل کشمیر کو جاری تحریک آزادی کیساتھ وابستگی پر ہراساں اور ڈرایا جائے ۔05اگست 2019 کے بعدمقبوضہ جموں وکشمیرکے لوگوں کو نگرانی کی متعدد سطح پر نشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد مظلوم عوام کی آوازوں کی نگرانی اور اظہار رائے کی آزادی کاگلہ گھوٹنا ہے۔کشمیری عوام کے رازداری حقوق کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ان کی سرگرمیوں پر انہیں کئی سطحوں کی نگرانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔مودی حکومت کشمیری عوام کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے مقبوضہ جموں وکشمیر میںپولیس کو GPS ٹریکر پازیب سے بھی لیس کرچکی ہے۔ڈیجیٹل اور بنیادی انسانی حقوق کے حامیوں کو کشمیری عوام کے رازداری حقوق اور ذاتی آزادیوں کے تحفظ کیلئے آگے آنا چاہیے۔
مقبوضہ جموںو کشمیر جو کہ نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے امن وا ستحکام کیلئے سنگین خطرہ ہے ۔خطے کی ابلتی ہوئی صورتحال کی جانب فوری عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔کیونکہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس تنازعے کو حل کیے بغیر یہ خطہ نہ تو امن واستحکام کا گہوارہ بن سکتا ہے اور نہ ہی اربوں لوگوں کو سکون میسر ہوگا۔مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ نہ دینے کے نتائج دنیا کو بھگتنا پڑیں گے۔لہذا عالمی برادری کو مقبوضہ جموںو کشمیر میں موجودہ زمینی صورتحال اور کشیدگی سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے۔مقبوضہ جموںوکشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے۔ یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی اور بہتر تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی اور بنیادی رکاوٹ ہے،اسی تنازعے پر دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور اگر اس تنازعے پر مستقبل میں کوئی جنگ چھڑ جائے گی تو عام اور روایتی نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی جس کے بعد کچھ نہیں بچے گا۔تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کو بھڑکانے میں چنگاری کا باعث بن سکتا ہے۔خطے میں ایٹمی جنگ سے بچنے کیلئے اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے فوری حل کیلئے نہ صرف مداخلت بلکہ تنازعہ کشمیر پر اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عملدر آمد کرائے۔جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کا روڑ میپ دیا جاچکا ہے۔اقوام متحدہ کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھارت ہی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔جنوبی ایشیا میں بحران کے خاتمے کیلئے تنازعہ کشمیر کا منصفانہ حل لازمی شرط ہے ۔مسئلہ کشمیرکشمیر ی عوام کی کئی نسلوں کو بری طرح متاثر کرچکا ہے اور سوا پانچ لاکھ کشمیری اسی مسئلے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔آج بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کے اطراف واکناف میں بھارتی دہشت گردی کاجن سر چڑھ کر بول رہا ہے۔معصوم کشمیریوں کو دوران حراست شہید کرنے کے علاوہ کشمیری خواتین کی عزت وعصمت پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کے علاوہ کشمیری عوام کی جائیدادو املاک اور رہائشی مکانوں کو آئے روز سیل کیاجاتا ہے،جبکہ مسلمان ملازمین کو بغیر کسی وجہ اور جواز کے نوکریوں سے برخاست کرکے ان کی جگہ بھارت سے لائے گئے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔دنیا فسطائی مودی حکومت پر واضح کرے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے عوام پر اس کا مسلسل ظالمانہ کریک ڈاون صرف علاقائی عدم استحکام میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔اگر ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں انسانیت کا قتل عام کرنے پر عالمی عدالت انصاف میں لے جایا سکتا ہے تو بھارت کو بھی عالمی عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے،کیونکہ وہ بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں فلسطین میں اسرائیلی نقش قدم اور پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر اہل کشمیر کا قتل عام کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے لازمی بنیادی انسانی اصولوں کو پامال کررہا ہے۔لہذا دنیا کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کو لگام دینے کیلئے جنوبی افریقہ کی طرح کھل کر سامنے آنے کی ضرورت ہے۔