مضامین

14 اور15 اگست برصغیر کے دو منفرد دن

محمد شہباز

shahbaz14 اور 15 اگست 1947 میں برصغیر کے دو ممالک معرض وجود میں آئے۔14 اگست کو پاکستان مصنئہ شہود پر رونما ہوا جبکہ صرف ایک دن کے فرق سے یعنی 15 اگست کو بھارت آزاد ہوا۔آزادی سے قبل دونوں متحدہ ہندوستان کے نام سے جانے جاتے تھے اور دونوں انگریزوں کی غلامی میں تھے۔حالانکہ انگریز خطے میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور پھر پورے خطے پر ہی قابض ہوگئے۔انگریزوں کے مظالم نے یہاں رہنے والوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ جو لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر تجارت کرنے آے تھے وہ نہ صرف مختار کل بن بیٹھے بلکہ انسانوں کو ہی اپنا غلام بنالیا۔متحدہ ہندوستان میں1857 میں انگریزوں کے خلاف بغاوت نے جنم لیا اور پھر اس بغاوت میں مسلمانوں کیساتھ ساتھ غیر مسلموں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔یہاں تک کہ 1947 آن پہنچا اور انگریزوں کو نہ صرف متحدہ ہندوستان سے اپنا بوریا بسترا گول کرنا پڑا جس کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہوا،پاکستان اور بھارت۔جاتے جاتے انگریز جو کہ بڑے شاطر واقع ہوئے ،اس تقسیم یا بٹوارے میں بڑی شاطرانہ ڈنڈی ماری ۔متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت یہ فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا تھا کہ مسلم آبادی والے علاقے پاکستان کیساتھ اور ہندو علاقے بھارت کیساتھ اپنا مستقبل وابستہ کریں گے ۔جس پر دونوں ممالک راضی بھی ہوئے۔البتہ مقبوضہ جموں وکشمیر،حیدر آباد اور جونا گڑھ کے معاملے میں تاریخ کی بدترین ناانصافی کی گئی۔یہ تینوں مسلم اکثریتی علاقے ہیں اور تینوں نے پاکستان کیساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہا،مگر انگریزوں کاشاطرانہ طرز عمل اور بھارتی حکمرانوں کا چانکیائی فلسفہ کام کرگیا۔پہلے حیدر آباد اور جونا گڑھ کو ہڑپ کیا گیا جہاں کے حکمران عوامی مرضی کے عین مطابق پاکستان کیساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہتے تھے ،مگر بھارتی حکمرانوں نے اپنی بے اصولی کا بدترین مظاہرہ کرکے ان دو نوں علاقوں پر فوج کشی سے عوامی مرضی کے برعکس قبضہ جمالیا۔ پھر مقبوضہ جموں وکشمیر جس کا بھارت کیساتھ کوئی زمینی رابطہ نہیں تھا بڑی عیاری سے گرداسپور کے راستے سے بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر تک رسائی دی گئی۔یوں تقسیم برصغیر کے اصولوں کی مٹی نہ صرف پلید بلکہ کروڑوں انسانوں کو ایک ایسے ملک کی غلامی میں دیا گیا جو ایک برہمن سامراج ہے ،جس کے نزدیک انسانی اقدار اور تہذیب و تمدن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔گو کہ اہل کشمیر تقسیم برصغیر سے قبل یعنی19 جولائی 1947 میں ہی سرینگر میں سردار ابراہیم خان کے گھر پر ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اپنا مستقبل پاکستان کیساتھ وابستہ کرنے کا اعلان کرچکے تھے لیکن دنیا کی بے حسی اور ناانصافی نے ایک ایسی بے اصولی کو پروان چڑھایا جس کی تلافی اہل کشمیر اپنی جانوں کی شکل میں ممکن بنار ہے ہیں ۔کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس بھارت ان کے سروں پر قابض ہوگیا اور تب سے لیکر آج تک قابض چلا آرہا ہے۔گو کہ بھارتی حکمرانوں نے طاقت کے بل پر اہل کشمیر کو اپنا غلام بنالیا لیکن کشمیری عوام نے بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا ۔گزشتہ77برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 14اور 15 اگست بڑی اہمیت کے حامل دن ہیں۔پہلے دن یعنی 14 اگست کو اہل کشمیر یوم آزادی پاکستان نہ صرف جوش و جذبے سے مناتے ہیں بلکہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم بھی لہراتے ہیں۔صرف ایک دن کے وقفے سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔
15 اگست بھارت کا یوم آزادی کشمیری عوام کیلئے یوم سیاہ ہوتا ہے۔جہاں 14 اگست کو جشن منایا جاتا ہے 15 اگست کو یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔پہلے دن 14اگست کو سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں 15 اگست ان کی جگہ سیاہ پرچم لیتے ہیں۔14 اگست کو گھروں میں چراغاں ہوتا ہے اور 15 اگست کو بلیک آوٹ۔بھارت تمام تر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ صورتحال تبدیل نہیں کراسکا۔یہاں تک کہ 05 اگست 2019 میں بھارت نے اپنے ہی آئین میں درج مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق دو شقیں منسوخ کردیں۔یہ اقدام اس لیے کیا گیا کہ شاید اہل کشمیر کو مرعوب کرکے انہیں ناجائز بھارتی قبضہ قبول کرنے پر مجبور کیا جائے مگر یہ وار بھی خالی ہوگیا۔چشم فلک نے بارہا اس بات کا مشاہدہ کیا کہ تاریخ کے بدتریں جبر کے باوجود بھارت کشمیری عوام کو اپنا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی موجودگی کی تعیناتی ،ڈرونز اور سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی کے باوجود کئی دن قبل پوسٹرز چسپان کیے گئے جن میں اہل پاکستان اور حکومت پاکستان کو 77ویں یوم آزادی کی مبارکباد دی گئی۔ اگرچہ بھارت اپنے نام نہاد یوم آزادی سے قبل ہی پورے خطے کو ایک فوجی چھائونی میں تبدیل کرتا ہے ،اور چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام پاکستان کیساتھ والہانہ عقیدت کا اظہار اور سبز ہلالی پرچم نصب کرتے ہیں۔05اگست 2019 کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں پوسٹرز چسپاں کرنے کا رجحان بھی بڑھ چکاہے۔جن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور بھارتی جیلوں و عقوبت خانوں میں مقید آزادی پسند رہنمائوں کی تصاویر کیساتھ ان کے پیغامات بھی درج ہوتے ہیں۔15 اگست کو بھی پوسٹرچسپان کیے جاتے ہیں جن میں کشمیری عوام سے بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طوپر منانے کی اپیل کی جاتی ہے۔
نام نہاد بھارتی یوم آزاد ی کنٹرول لائن کی دونوں جانب ،پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جاتی ہے ، کشمیری عوام کی جانب سے بھارت کے نام نہاد یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانادنیا کی توجہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ اور ناجائز بھارتی قبضے کی طرف مبذول کرانا ہے کہ بھارت ایک غاصب ہے،جس نے تمام بین الاقوامی اصول و قوانین اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کی خواہشات کے برعکس طاقت کی بنیاد پر غلام بنا رکھا ہے۔بھارت کو اپنا نام نہاد یوم آزادی منانے کا کوئی حق نہیں ہے جب تک کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کو ان کا حق خود ارادیت واگزار نہیں کرتا،جس کا وعدہ بھارت اقوام عالم کو گواہ ٹھرا کر کشمیری عوام کیساتھ کرچکا ہے۔شرم کی بات ہے کہ بھارت اپنی آزادی پر خوشی منارہا ہے لیکن اسی آزادی کے مطالبے کی پاداش میں کشمیری عوام کاقتل عام بھی کر رہا ہے۔گزشتہ 35 برسوں میں ایک لاکھ کے قریب کشمیری بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔دس ہزار سے زائد کشمیری گرفتاری کے بعد لاپتہ کیے جاچکے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں جگہ جگہ گمنام قبریں دریافت ہوچکی ہیں،جن میں لوگوں کو اجتماعی طو ر پر دفن کیا جاچکا ہے۔بھارت کے ان ظالمانہ اقدامات نے ہزاروں نیم یا ادھ بیوائوں کو جنم دیا ہے،اور مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا واحد خطہ ارضی ہے جہاں Half Widowکی اصطلاح تواتر کیساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں5 اگست 2019 سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں 5 اگست 2019 سے لیکر اب تک 907 کشمیری شہید، 2442 سے زائد زخمی اور کم از کم 24904 گرفتار کیے جاچکے ہیں۔جبکہ رواں برس بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اب تک 54 کشمیری نوجوان شہید اور 2825 گرفتار ہوئے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں سزا دی جا رہی ہے۔لیکن پھر بھی نریندرا مودی کا بھارت اپنا یوم آزادی بے شرمی سے منا رہا ہے۔کشمیری عوام ہر حال میں بھارتی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں جس کیلئے آج تک سوا پانچ لاکھ سے زائد جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں ۔اہل کشمیرنے اپنے مادر وطن پر بھارت کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ کریں گے۔بھارتی غلامی سے آزادی ہر کشمیری کی خواہش ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا بھارتی دعوی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے نقاب ہو چکاہے۔
اس کے برعکس کشمیری اور پاکستانی عوام مضبوط مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے دریا پاکستان کی طرف بہتے ہیں ،جو اس بات کا اعادہ ہے کہ دونوں ایک ہیں۔مسئلہ کشمیر جو کہ تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔ بھارت کو جان لینا چاہیے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو طاقت سے زیر نہیں کرسکا ہے ۔بطل حریت سید علی گیلانی کے آج سے کئی برس قبل سرینگر میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں یہ الفاظ تاریخ میں ثبت ہوچکے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے دریائوں کا رخ مملکت خداداد کی جانب ہے۔جب بارشیں برستی ہیں تو ایک ساتھ برستی ہیں۔جب ہوائیں چلتی ہیں تو ایک ساتھ چلتی ہیں،چاند کا مطلع بھی ایک ہے۔ہماری بود و باش بھی ایک ہے اور ہمارا مذہب بھی ایک ہی ہے،یعنی ہم ایک ہی خدا اور پیغمبر کو ماننے والے ہیں،جبکہ شدید بادو باراں کے باوجود سرینگر مظفرآباد سڑک کبھی بند نہیں ہوتی ،اس کے مقابلے میں بھارت کیساتھ نہ ہمارا کوئی قدرتی راستہ ملتا ہے اور نہ ہی مذہبی،ثقافتی اور تہذیبی رشتہ ہے۔ان تمام حالات و واقعات کی روشنی میں سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان کا جزو لاینفک ہے۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بجا طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اور غیر آئینی بھارتی اقدامات نے پھر ایکبار یہ ثابت کیا ہے کہ دو قومی نظریہ آج پہلے سے کہیں زیادہ موثر اور بنیادی محرک ہے ۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کو برصغیر میں ایک الگ ریاست کی ضرورت تھی۔مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور مستقل حل کیلئے پاکستان کی مسلسل حمایت کشمیری عوام کیلئے ہمیشہ حوصلہ افزائی کا باعث رہی ہے۔گوکہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کا ضامن ہے اور آج کہیں زیادہ ہے۔بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے آزادی کی جدوجہد میں اہل پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔جس کا عملی ثبوت وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنا قیمتی لہو بہا کر اہل کشمیر کے خون کیساتھ شامل کرکے دے چکے ہیں۔اگر چہ آج تک دنیا کی کوئی بھی طاقت پاکستانی اور کشمیری عوام کی یکجہتی کو نقصان نہیں پہنچا سکی،البتہ پہلے سے کہیں زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔بلاشبہ فسطائی مودی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیاں ‘دو قومی نظریہ’ کا اعادہ کرتی ہیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button