خصوصی رپورٹ

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت ، رہائی کا مطالبہ

سرینگر03 دسمبر (کے ایم ایس)اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے سرینگر سے تعلق رکھنے والے کشمیری انسانی حقوق کے ممتاز علمبردار خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرینگر میں قائم انسانی حقوق کے گروپ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے کوآرڈینیٹرخرم پرویز کو بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے 22 نومبر کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف جھوٹے الزامات کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی بعض دفعات کے تحت مقدمہ درج کیاگیاتھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری کے فورا بعد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالور نے ایک ٹویٹ میں خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیاتھا کہ قابض انتظامیہ خرم پر ہشت گردی سے متعلق جھوٹے مقدمات قائم کر سکتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہاتھاکہ ”وہ دہشت گرد نہیں بلکہ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں”۔اظہار رائے کی آزادی کے حق کے فروغ اور تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کے سابقہ خصوصی نمائندے ڈیوڈ کائی نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسداد دہشت گردی کے ادارے این آئی اے کاایک اور غیر معمولی ظلم ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے ایک بیان میں انسانی حقوق کے سرکردہ محافظ خرم پرویز کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکی رہائی کامطالبہ کیا ہے۔ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمانRupert Colvilleنے جنیوا میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ہمیں انسانی حقوق کے کشمیری محافظ خرم پرویز کی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت گرفتاری پر گہری تشویش ہے۔انہوںنے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کا مکمل احترام اور تحفظ کریں اور خرم پرویز کی رہائی کیلئے اقدمات کریں ۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ کشمیری کارکن خرم پرویز کی گرفتاری بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف مجرمانہ مقدمات کے اندراج اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال کی ایک اور مثال ہے ۔ ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کی بجائے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جواب دہی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔تشدد کیخلاف جنیوا میں قائم ایک غیرسرکاری عالمی تنظیم ”ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر”نے بھی ایک ٹویٹ میں خرم پرویز کی گرفتاری پرشدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ٹویٹ میں خرم پرویز کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے دوران حراست تشددکاخدشہ بھی ظاہر کیاگیا ہے ۔ کشمیر میں مقیم ایک صحافی اور سیاسی تجزیہ کار انورادھا بھسین نے خرم پرویز کی گرفتاری کوانسانی حقوق کے کارکنوں کی آواز دبانے کی ایک کوشش قرار دیاہے۔انہوں نے ایک انٹرویو میں کالے قانون کے تحت ان کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بھارتی حکومت نے پہلے ہی کشمیر میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔
کے ایم ایس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کو خوفزدہ کرنے اور خاموش کرانے کی ایک سازش ہے کیونکہ خرم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کررہے تھے ۔ان کی تنظیم کولیشن آف سول سوسائٹی نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں کئی سخت رپورٹیں شائع کی ہیں جن میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گرفتاریوں اوربھارتی ریاستی دہشت گردی کے واضح ثبوت موجو دہیں۔ رپورٹ کے مطابق خرم پرویز کی گرفتاری نے دنیا کی سب سے بڑی نام نہادجمہوریت کے دعویدار بھارت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے ۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button