کشمیری نظربندوں کی بیرون ریاست جیلوں میں منتقلی
محمد شہباز
مودی اور اس کے حواریوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو عملا ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا ہے ، آزادی اظہار تو دور کی بات ،زبان کھولنا بھی ایک جرم بنا دیا گیا ہے،بھارتی سفاکیت ،درندگی اور بربریت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ،غیر قانونی اور جابرانہ قبضے کے خاتمے کی بات کرنا گویا اپنے آپ کو انسان نما بھارتی بھڑیوں کے حوالے کرنا ہے،مگر مودی کے اس جبر و قہر اور اہل کشمیر سے زندہ رہنے کے حق سے محروم کردینے کے باوجود کشمیری نوجوان آزادی کا نعرہ مستانہ بلند کرنے سے باز نہیں آتے،جسکے نتیجے میں انہیںجان سے مارنے کے علاوہ جیلوں اور عقوبت خانوں کی زینت بنایا جاتا ہے۔جہاں وہ بغیر مقدمہ چلائے برسوں سڑائے جاتے ہیں،صرف اسی پر بس نہیں کیا جاتا بلکہ اب کشمیری نظربندوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی جیلوں سے باہر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جو انتقامی اورغیر انسانی فعل ہے ۔مودی حکومت کشمیری سیاسی نظربندوں کو دور درازبھارتی جیلوں میں منتقل کرنے کے علاہ کشمیری سیاسی نظربندوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں تقریبا 100 سیاسی نظربندوں کو حال ہی میں بھارت کی دہلی، ہریانہ اور اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔نظر بندوں سے متعلق بین الاقوامی قوانین بھارتی حکمرانوں کو کشمیری نظربندوں کو بھارتی جیلوں میں منتقل کرنے سے روکتے ہیں جو ان کے گھروں اور خاندانوں سے بہت دور ہیں۔
کشمیری نظربندوں کو بھارتی جیلوں میں منتقل کرنا سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں۔ کشمیری سیاسی نظر بندوں کو بھارت کی جیلوں میں منتقل کرنا کشمیری عوام کے خلاف مودی کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ کشمیری نظربندوں کو بھارتی جیلوں میں منتقل کرنے کا مقصد ان کے خاندانوں کو جذباتی اور مالی طور پر نقصان پہنچانا ہے۔ کشمیری نظربندوں کے اہل خانہ بھارتی جیلوں میں ان کی بگڑتی ہوئی صحت اور زندگی کے بارے میں شدید فکر مند ہیں۔ کشمیری نظربندوں کو بھارتی جیلوں میں منتقل کرنا ان کی زندگیوں کو شدید خطرات میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں فسطائی بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر مقید 100کشمیریوں کو بھارت کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا ہے۔نظربندوں کو جموں کی کوٹ بھلوال جیل او دیگر جیلوں سے نئی دہلی، ہریانہ اور اتر پردیش کی مختلف بدنام زمانہ جیلوں میں منتقل کیا گیا جبکہ مزید نظر بندوں کی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت پابند سلا سل 56 نظر بندوں کو کوٹ بھلوال جیل سے سب سے پہلے بھارتی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ دیگر 40 نظر بندوں کو سری نگر سینٹرل جیل اور پونچھ ڈسٹرکٹ جیل سمیت مقبوضہ کشمیر کی دیگر جیلوں سے منتقل کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی سرکردہ کشمیری حریت رہنما گزشتہ کئی برسوں سے نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں نہ صرف بند ہیں۔بلکہ انہیں سیاسی مجرموں کے ساتھ رکھا گیا،جو اکثر و بیشتر ان پر حملہ آور بھی ہوتے،یوں انہیں جیلوں میں بھی زندگی گزارنے کے عالمی قوانین کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کشمیری حریت رہنماوں اور دیگر نظربندوں کو گھروں سے سینکڑوں اور ہزاروں میل دور بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کرنے کے پیچھے مودی حکومت کا اصل مقصد انہیں جاری جدوجہد آزادی سے اپنی وابستگی ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔تاہم ماضی میں اس طرح کے بھارتی حربے اہل کشمیر کو ان کے جذبہ آزادی سے دستبردار کرانے میں ناکام رہے اور آئندہ بھی بھارتی حکمرانوں کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
مقبوضہ کشمیر میں ہر آواز کو خاموش کرانا بھارتی حکمرانوں کا ایک پرانہ حربہ ہے،عام کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہاں روا رکھے جانے والے بھارتی مظالم کو دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرنے والے صحافیوں کو بھی بخشا نہیں جاتا،آج تک کئی صحافی بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں،جبکہ صحافیوں کی آواز کو خاموش اور ان کی زبان بندی کرانے میں مودی ہر ہتھنکڈہ استعمال کررہا ہے۔اس سلسلے میں بھارتی پولیس نے سرکردہ کشمیری صحافی فہد شاہ پرکالاقانون پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کردیا ہے ۔بھارتی پولیس نے دو ماہ قبل فہد شاہ کے خلاف تین مقدمات درج کر کے انہیں کپواڑہ جیل میں قید کردیا تھا۔ سرینگر کے صورہ علاقے کے رہائشی فہد شاہ پر بھارتی پولیس کی طرف سے ان کے خلاف تین میں سے دو مقدمات میں عدالت کی طرف سے ضمانت ملنے کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیاہے اور وہ اس وقت سرینگر میں اپنے خلاف درج تیسرے مقدمے میں بھارتی پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہیں 4فروری کو ایک فرضی مقابلے کے بارے میں متاثرہ خاندان کا موقف سامنے لانے پر گرفتار کیا گیا تھاجوکہ بھارتی پولیس کے دعووں کو جھٹلا رہا تھا۔ فہدشاہ جو کہ ایک مقامی نیوزپورٹل "کشمیر والاکے چیف ایڈیٹر ہیں کو پلوامہ پولیس نے سب سے پہلے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانونUAPA کے تحت گرفتار کیا تھا۔تاہم سرینگر کی خصوصی عدالت کی طرف سے ان کی عبوری ضمانت کی منظوری کے بعد انہیں شوپیاں پولیس نے گرفتار کر لیاتھا۔فہد شاہ اس وقت ان کے خلاف سرینگر کے صفاکدل پولیس اسٹیشن میں درج تیسرے مقدمے میں پولیس کی حراست میں ہیں۔
اس سے قبل12 مارچ کو بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی این آئی اے نے دو کشمیریوںکے خلاف ایک جھوٹے مقدمے میں ضمنی فرد جرم دائر کردی ہے۔این آئی اے نے افشاں پرویزاور توحید لطیف صوفی کے خلاف نئی دہلی میں NIA کی خصوصی عدالت پٹیالہ ہاوس میں تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق کالے قانون UAPA کی دفعات کے تحت فرد جرم داخل کی۔اہل کشمیر کو کبھی NIAتو کبھی( (ED Enforcement Directorate کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ پوری آزادی پسند قیادت کو بھارتی جیلوں میں بند کرکے تحریک آزادی کشمیر کا گلا گھوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی ہے،لیکن اہل کشمیر نہ جانے بھارتی مظالم کو کیوں خاطر میں نہیں لاتے ،اور وہ کبھی پھانسی کے پھندوں کو چھوم کر اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں تو کبھی برس ہا برس بھارتی جیلوں میں گزار کر اولعزمی کی داستان لکھ رہے ہیں۔مقبول بٹ اور محمد افضل گورو جہاں تہاڑ جیل میںتختہ دار پر چڑھ کر تاریخ میں امر ہوگئے وہیں جناب محمد اشرف صحرائی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھارتی استعماریت کو ٹھوکرمار اپنی جان قربان کرکے بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بتادیا کہ جان تو قربان کی جاسکتی ہے لیکن نظریہ اور نصب العین نہیں۔سید علی گیلانی یکم ستمبر 2021کو اپنے گھر واقع حیدر پورہ سرینگر میںخانہ نظر بندی کے دوران ہی خالق حقیقی سے جاملے،اپنی پوری عمر تحریک آزادی کے نصب العین پر ایک ایسی چٹان کی طرح ڈٹے رہے کہ بھارت کا سر جس کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔دوسرے آزادی پسند رہنما شدید علالت کے باوجود جس طرح قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اس پر انہیں اہل کشمیر کی جانب سے سلام پیش کیاجاتا ہے۔
شبیر احمد شاہ نے اپنی غیر قانونی نظر بندی کے 34 برس مکمل کرچکے ہیں۔ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کی وکالت انتہائی بے باکی اور دیانتداری کے ساتھ کرتے ہیں۔انہوں نے بھارتی جیلوں خاص طور پر دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیری سیاسی نظر بندوں کی حالت کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نظر بندوں کو تمام بنیادی انسانی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے، بھارتی حکام کا یہ طرز عمل دراصل ان کے متعصبانہ رویے کا عکاس ہے۔ شبیر شاہ کے علاوہ محمد یاسین ملک، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر قاسم فکتو ،پیر سیف اللہ، الطاف احمد شاہ، ایاز اکبر، راجہ معراج الدین کلوال، نعیم احمد خان، شاہد الاسلام، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، ڈاکٹر غلام محمد بٹ، فاروق احمد ڈار، مظفر احمد ڈار ، طالب حسین ، غلام قادر بٹ ، محمد ایوب ڈار، شاہد یوسف، سید شکیل احمد، تاجر ظہور احمد وٹالی، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت دیگر کشمیری تسلسل کے ساتھ نظربندی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔کشمیری نظربندوں کے ساتھ بھارتی جیلوں میں پیشہ ور مجرمان والا رویہ اپنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے وہ انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، ایمنسٹی انٹر نیشنل، ایشیا واچ اور انٹر نیشنل ریڈ کراس کو چاہیے کہ وہ بھارتی جیلوں میں نظر بند کشمیری رہنماوں کی حالت زار کا نوٹس اوران کی رہائی کے لیے بھارت پہ دبا وڈالیں۔ہزاروں کشمیری سیاسی نظر بندمقبوضہ کشمیراور بھارت کی جیلوں میں مقید ہیں۔ کشمیری سیاسی نظربندوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا واحد مقصد اہل کشمیر اور ان نظربندوں کو جدوجہد آزادی کشمیر سے دستبردار کرانے کی کوشش ہے۔ مودی کے جابرانہ ہتھکنڈے کشمیری عوام کو اپنی منصفانہ اور عالمی قوانین کے عین مطابق جدوجہد آزادی کے نصب العین کو آگے بڑھانے سے نہیں روک سکتے۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو کشمیری سیاسی نظربندوں کی رہائی کے لیے بھارت پر دباو ڈال کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ دنیا کو بھارتی جیلوں میں مقید کشمیری سیاسی نظربندوں کی رہائی کے لیے آگے آنا چاہیے۔تاکہ انہیں بھی جینے دیا جائے جو ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔