"اشرف صحرائی” شہادت کہ پہلی برسی پر عقیدت کے پھول
آیا تھا آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
"اشرف صحرائی” شہادت کہ پہلی برسی پر عقیدت کے پھول
تحریر: مجاہد ذاکراللہ
محمد اشرف صحرائی شخص نہیں بلکہ ایک کارواں تھے، فرد نہیں ایک انجمن تھے۔وہ جس اُفق پر بھی نمودار ہوئے خوب چمکے،ان کی چمک کسی سے مستعار لی ہوئی روشنی کی مرحون منت نہ تھی۔
کیا کہوں!وہ کشمیر کے ظلمت کدے میں روشنی کی کرن بن کر اُبھرے، ایسی روشنی جس کے بارے میں لوگ یوں استفسار کرتے ہیں
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں؟
آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جاں پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں؟
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا؟
غربت میں آگے چمکا گمنام تھا وطن میں
محمد اشرف صحرائی،حق کی خاطر صحراؤں کی خاک چھاننے، دریاؤں کا سینہ چیر کر آ گے بڑھنے کا نام ہے۔ اشرف صحرائی اپنے ہاتھوں اپنے پیاروں کے جنازے اُٹھانے کا نام ہے۔ بھتیجے عبدالقیوم کو اپنے ہاتھوں سرپر کفن باندھنے، بھانجے الطاف حسین کی خون آ لود لاشے کو بوسہ دے کر رب کا شکرادا کرنے، جواں سال بیٹے جنید صحرائی کو اپنے ہاتھوں دولہا بناکر جرأت و عزم کی سواری دے کر اپنافرض اور ملت کا قرض چکانے، میدان قتال میں روانہ کرنے کا نام ہے۔
یہ ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک گھر کی کہانی ہے، خون دے دے کر جہاں بوٹے پالے جاتے ہیں۔پھر ان تناور درختوں کو حق کی خاطر کٹ مرنے کا سبق سکھایا گیا۔ یہ وہ خاندان ہے جس کے صریح مجرموں نے فقط سچائی سے پیار کیا،جن کے عاشقوں نے کنارہ دار پر انوکھے سجدے کئے۔یہ وہ گھر ہے جس نے تاریخ کشمیر کو خون دے دے کر گل و گلزار کیا، ہاں میں یہی کہوں گا
یہ ملّت احمد مرسل ہے اک ذوق شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ مردوں کو سولی کے لیے تیار کیا۔
اشرف صحرائی کو جماعت اسلامی سے تحریک حریت تک کے سفر سے تعبیر کرو گے تو خود کو دھوکہ میں ڈالوگے
صحرائی خودی، خود اعتمادی، خود انحصاری کی دولت سے مالامال تھے۔ وہ خلجان سے دوراور خلعت فاخرہ پہننے کی لالچ سے پاک تھے۔ وہ جلوت میں بھی صحرائی تھے اور خلوت میں بھی صحرائی۔وہ خواب ضرور دیکھتے تھے لیکن خوابیدہ رہنے کی بیماری سے کوسوں دور تھے۔ خود دار تو تھے لیکن خود سر نہ تھے۔وہ خوش اقبال کے ساتھ ساتھ خوش الحان بھی تھے۔
اشرف صحرائی بننے کے لیے شجاعت، بہادری،دلیری،صبر، ثبات اور برداشت کے اوصاف سے مالامال ہونا ضروری ہے۔ صحرائی بننا اتنا آسان نہیں،کیسے بتاؤں اورکیاکیا بتاؤ ں جو ظلم سرعام اور پس دیوار ہوئے۔ اتنا ذہن میں رکھو کہ قطرہ کو گوہر ہونے تک کن کن مراحلوں سے گزرنا ہوتا ہے۔صحرائی بننے کے لیے ان مراحلوں سے گزرنا لازم ہے۔