مضامین

جون،تشددکے شکار افراد سے یکجہتی کا عالمی دن 26

نجیب الغفورخان

b28d8e3ccb1ff9d46fa2d9e70222c9e7 (2)پاکستان سمیت دنیا بھر میں تشدد کے خلاف عالمی دن 26 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد تشدد سے متاثرہ افراد کی بحالی، انصاف کی فراہمی اور انسانوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے عوامی شعور کو اجاگر کرنا ہے۔ تشدد تمام ہی انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔ تشدد کی کئی اقسام ہیں۔ مگراس کا تدارک آج تک نہ ہوسکا۔ا قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12 دسمبر 1997کو قرار داد نمبر149/52کو منظور کرتے ہوئے ہر سال26جون کو تشدد کے شکار لوگوں کی حمایت میں عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پہلی مرتبہ یہ دن 26جون1998ء کو منایا گیا جس میں دنیا بھر میں تشدد کا شکار افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا اور ہر قسم کے تشدد کے خلاف آواز بلند کی گئی۔اقوام متحدہ کے مطابق تشدد کا مطلب کسی شخص کو جسمانی یا ذہنی طور پر براہ راست یا بالواسط ایک مرتبہ یا مسلسل تکلیف، جبر اور ایذا پہنچانا ہے۔یہ دن1979ء کو بننے والے اقوام متحدہ کے اس کنونشن کی یاد کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں جنگوں میں ایذارسانی‘ تشدد‘ بدکاری اور دیگر ظالمانہ اور غیر انسانی فعل کے شکار افراد کی امداد‘ حمایت اور انہیں انصاف دلانے کے لئے جدوجہد کا آعادہ کیا گیا ہے۔ اس کنونشن کی 162 ممالک نے توثیق کی۔اقوام متحدہ پوری دنیا میں موجود غیر سرکاری تنظیموں کے ایذارسانی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
اس حوالے سے ایک فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کی تنظیموں کو ایذارسانی کا شکار افراد کے طبی‘نفسیاتی‘قانونی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں نجی ٹارچر سیلز موجود ہیں جہاں طاقتور افراد کمزوروں پر تشدد کرتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے سینکڑوں ایسے ٹارچر سیل قائم کئے ہوئے ہیں جہاں پر دس برس کے بچوں سے لے کر نوے سالہ بزرگوں پر گزشتہ کئی عشروں سے جسمانی‘ ذہنی اور نفسیاتی تشدد کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد وں کے بر عکس مقبوضہ جموں کشمیر میں لاکھوں لوگوں کو تشدد کر کے ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا نشانا بنا یا گیا ہے۔بھارتی ریاستی اداروں نے جگہ جگہ ٹارچر سیل قائم کر رکھے ہیں جو کہ روزانہ کی بنیاد پرلوگوں کو گرفتار کر کے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔اور اس طرح کشمیر کی 95%آبادی کو ذہنی ٹارچر کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی آف کشمیر سرینگر کے تعاون سے تیار کی گئی ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 18لاکھ سے زیادہ بالغ مرد اور خواتین ذہنی دباؤ، اضطراب، ڈپریشن، ذہنی و جذباتی صدمہ جیسے تشددکی وجہ سے امراض کا شکار ہیں اور ان امراض سے دوچار 18لاکھ افراد مقبوضہ ریاست کے بالغ افراد کی 45 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں۔ایک اور تحقیقی مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ 11سے 15سال کی عمر کے بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنی آنکھوں کے سامنے اموات، جنسی تشدد، جسمانی تشدد اور جائیداد کی تباہی و بربادی کو دیکھنے کے بعد پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہے جبکہ بھارتی مظالم کے خلاف مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں کو نشانہ لے کر مارا جا رہا ہے، انہیں زخمی اور معذور کیا جا رہا اور خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کرہراساں کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اب تک جتنے نوجوانوں کو آنکھوں کی بصارت سے محروم کیا گیا اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد ناموافق حالات کے باعث ذہنی صدمہ یا ٹرامہ سے دوچار ہو کر مختلف ذہنی و نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے اور تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کئی شہری شیزو فرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، خوف، افسردگی اور ذہنی اضطراب کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی 2018ء کی رپورٹ میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں شہریوں کے معاشی، سماجی، ثقافتی حقوق اور اقوام متحدہ کے طاقت کے استعمال اوراسلحہ سے متعلق اصولوں اور عہد ناموں کو پامال کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے تشدد کے خلاف دن منانے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام ہندوستانی افواج کے بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہیں، قابض بھارتی فورسز نے جگہ جگہ ٹارچر سیل قائم کر رکھے ہیں جو عام لوگوں کو گرفتار کر کے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
بھارت کی بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر دو بارہ قبضہ کر کے اور ریاست کے 14 ملین سے زائد لوگوں کی مرضی و منشا کے خلاف اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے برا ہ راست نئی دہلی کے ماتحت کر دیا ہے اور اس طرح ریاست کے لاکھوں لوگوں کو شدید ا یذیت اور کرب سے دو چار کر دیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج نوجوانوں کاپیچھا کر کے انہیں بے رحمی سے قتل کر رہی ہے اور ان مظالم کے خلاف پر امن مظاہرہ کرنے والوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر انہیں بینائی سے محروم کر رہی ہے اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ان قابض فورسز کو (آرمڈ فورسز جموں کشمیر سپیشل پاورز ایکٹ، 1990 AFASPA) اور (PSA پبلک سیفٹی ایکٹ-1978) کے ظالمانہ کالے قوانین کے لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔
مقبو ضہ جموں کشمیر میں کشمیریوں کو اُن کا بنیادی اور پیدائشی حق مانگنے کی پا داش میں بھارتی قابض فورسز کی طرف سے ظلم و جبر اور بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔ معصوم کشمیریوں پر ظلم و بر بریت کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ -10لاکھ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہندوستانی فورسز معصوم کشمیریوں کا جینا دو بھر کئے ہوئے ہے۔ بچے،بوڑھے،جوان،مرد و خواتین غرض کوئی بھی بھارتی جارحیت سے نہیں بچ سکا۔بچوں پر ایسے بہیمانہ تشدد کئے گئےاس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ 18ماہ کی حبہ نثار کو پیلٹ گنز کا نشانہ بنا کر زخمی کیا گیا۔
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ہندوستان مقبو ضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہاہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی یہی مطالبہ دہرایا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ قراردادوں کے تحت حق خودارادیت دیا جائے۔
کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق بھا رتی فوجیوں نے جنوری 1989 سے اب تک 96ہزار3سو8کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں سے 7ہزار3سو36کو دوران حراست وحشیانہ تشدد اورجعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 1لاکھ 71ہزار57کشمیریوں کو گرفتارکیا، 1لاکھ10ہزار5سو13مکانات اور دیگر عمارتیں تباہ کیں۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران 22ہزار9سو76خواتین بیوہ جبکہ1لاکھ7ہزار9سو60بچے یتیم ہوئے۔ بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989 سے اب تک 11ہزار2سو63خواتین کی آبرو ریزی کی۔
سرینگر میں قائم ایک ریسرچ سیل کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کی اصل تعداد 15لاکھ ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بھارتی فوج کے اہلکاروں کی تعداد 7لاکھ50ہزار، پیرا ملٹری اہلکاروں کی تعداد 5لاکھ 35ہزار، پولیس اہلکاروں کی تعداد 1لاکھ30ہزار، اسپیشل پولیس آفیسرز کی تعداد 35ہزار جبکہ ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے اہلکاروں کی تعداد 50 ہزارہے۔ مجموعی طور پر یہ تعداد پندرہ لاکھ ایک ہزار بنتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بہیمانہ مظالم میں بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی ملوث ہے جب کہ جینوسائیڈ واچ پہلے ہی دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم سے خبردار کر چکی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فروری 2023 میں بھارت نے مقبوضہ وادی میں مسلم اکثریتی علاقوں کو مسمار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے باعث بے شمار نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے لیکن بھارتی مظالم کشمیریوں کے عزم کو توڑنہیں سکتے کیونکہ ان مظالم سے کشمیریوں کا جذبہ آزادی مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔اب یہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور دنیا کو مجبور کریں کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے۔

نجیب الغفورخان:2

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button