”آئی آر ایس “ کے زیر اہتمام ویبنار میں سید علی گیلانی کو زبردست خراج عقیدت
اسلام آباد 02 ستمبر (کے ایم ایس) انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) اسلام آباد نے ” حق خود ارادیت کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد ۔ ایک جائزہ “ کے عنوان سے ایک ویبینار کا انعقاد کیا۔ ویبینار میں شرکت کرنے والے ماہرین میں ڈاکٹر فرحان چک، ڈاکٹر مجاہد گیلانی، الطاف وانی اور ڈاکٹر غلام نبی فائی شامل تھے۔
آئی آر ایس کے صدرسفیر ندیم ریاض نے سید علی گیلانی کے بارے میں دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن افسوسناک ہے کیونکہ ایک عظیم شخصیت جو کسی تعارف کی محتاج نہیں، ایک برس قبل ہم سے رخصت ہو گئی۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سید علی گیلانی انسانیت کی علامت، مہربان، ہمدرد، بیباک، زیرک، دیانتدار، مخلص اور اس سے بھی بڑھ کر تھے جنہوں نے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے بنیادی اصول پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر ایک کھلی جیل بن چکا ہے جہاں لوگوں کے حقوق کو استثنیٰ کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے لیکن جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتی ۔آئی آر ایس کی تجزیہ نگارحمیرا اقبال نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، کشمیری عوام کی جاری جدوجہد بھارتی قابض بھارتی فورسز کے غیر انسانی طرز عمل کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ ورلڈ فورم فار پیس اینڈ جسٹس کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی فائی نے دنیا بھر میں موجود کشمیری تارکین وطن کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہمیں بھارت کی استعماریت کے تباہ کن اثرات پر یکسوئی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد اسے اقوام متحدہ اور تمام بین الاقوامی فورمز پر لے جایا جا سکتا ہے تاکہ کشمیری بیانیے کے حوالے سے اخلاقی مددحاصل کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری نے کشمیر پرمسلسل بھارتی قبضے کو نظر انداز کر رکھا ہے،حالانکہ اس نے اس قبضے کے جواز کو کبھی تسلیم نہیں کیا ۔انہوںنے پنڈٹ برادری سے تعلق رکھنے والے مشہور ماہر امراض قلب ڈاکٹر سمیر کول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 80 فیصد کشمیری سید علی گیلانی کی عزت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ بدعنوان نہیں تھے۔ مرحوم رہنما ایماندار اور اپنے لوگوں کے لیے مخلص تھے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم رہنما نے 26 اکتوبر 2009 کو سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیشین گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے 5 لاکھ بھارتی بہاریوں اور چھ سے سات لاکھ فوجیوں کومقبوضہ علاقے کی شہریت دی جائے گی جس کے بعد بھارت خطے میں رائے شماری کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کرے گا۔ ڈاکٹر فائی نے بتایا کہ بھارت نے مقبوضہ علاقے میںنئے ڈومیسائل قوانین اسی مقصد کے لیے لاگو کیے اور اس نے گزشتہ دو برسوں میں 4.3 ملین سے زائد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں اور مقبوضہ علاقے کی انتخابی فہرست میں 25 لاکھ سے زائد بھارتیوں کو شامل کرنے کا اعلان کیا ۔ عالمی شہرت یافتہ کشمیری کینیڈین سکالر ڈاکٹر فرحان چک نے کہا کہ ہم اس شخص کی عزت کرتے ہیں جس نے ہمیں ایک خواب دیا اور اندھیرے میںہمیں روشنیدکھائی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کے بارے میں ان کے دشمن بھی جانتے تھے کہ وہ خود ارادیت کے اصول پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
کشمیر یوتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر مجاہد گیلانی نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں کشمیری خواتین کے کردارپر روشنی ڈالتے کہا کہ کشمیری خواتین کی حمایت اور فعال شمولیت کے بغیر تحریک آزادی اتنی آگے نہیں بڑھ سکتی تھی ۔ ڈاکٹر مجاہد گیلانی نے آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی کا بھی ذکر کیا، جنہیں تقریباً پانچ سال قبل نئی دہلی کی تہاڑ جیل منتقل کیا گیا تھا اور انہیں بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے کالے قوانین کے تحت قید مسلسل قید میں رکھا ہیں۔کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف وانی نے کشمیر کی تحریک آزادی میں نوجوانوں کے کردار پربات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا تنازعہ دنیا کے ان سنگین مسائل میں سے ایک ہے جہاں نوجوانوں نے کسی نہ کسی طریقے سے نظریے کی تشکیل کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر کے مرکزی اہمیت حاصل کر لی ہے۔
ورلڈ کشمیر اویرنیس فورم کے صدر ڈاکٹر غلام نبی میر نے سید علی گیلانی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کشمیریوں کو وہ سب کچھ دیا جو ان کے پاس تھا۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم رہنما نے خود کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا اور حق پر مبنی اس جدوجہد میں انہوںنے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایک اور تقریب میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے پروفیسر ڈاکٹر امتیاز خان نے سید علی گیلانی کو امن کا مظہر قرار دیا جنہوں نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے لیے ایک عملی نقطہ نظر اپنایا۔ اپنی زندگی کے آخری 11 برسوں میں وہ اپنے گھر میں قید رہے ۔انہوں نے کہا کہ مرحوم رہنما کے لبوں پر ہمیشہ حق خودارادیت کی بات رہتی تھی اور یہ وہ مسئلہ تھا جس پر انہوں نے اپنی آخری سانس تک کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ڈاکٹر خان نے مزید کہا کہ سید علی گیلانی کی پاکستان سے بے پناہ محبت تھی اور وہ عوامی سطح پر اس کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ تاہم وہ یہ بھی واضح طور کہتے رہے کہ وہ اکثریت کے فیصلے کو قبول کریں گے اور اپنا فیصلہ کسی پر مسلط نہیں کریں گے۔