مقبوضہ جموں و کشمیر

بھارتی فوج عام کشمیریوں کی گاڑیاں چھین کر انہیں جعلی مقابلوں کیلئے استعمال کرتی ہے ، بی بی سی کی رپورٹ میں انکشاف

سرینگر08 ستمبر (کے ایم ایس)
بھارتی فوج غیر قانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں شہریوں سے انکی گاڑیاں چھیننے کے بعد انہیں جعلی مقابلوں میں استعمال کر کے تباہ کر دیتی ہے جبکہ ان کے مالکان کو اکثر گرفتار کر کے بھارتی فوجی کیمپوں میں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بی بی سی ہندی نے مقبوضہ علاقے میں کشمیری عوام کے درپیش مشکلات کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کشمیری عوام کے اس المیے سے پردہ اٹھایا ہے جس پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج نے خود اعتراف کیا ہے کہ فوجی آپریشن کے لیے عام کشمیریوں کی گاڑیوں کواستعمال کیاجاتا ہے۔بی بی سی نے اپنی رپورٹ کا آغا ایک کشمیری اعجاز احمد سے شروع کی ہے۔
جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کے گائوں ریشی نگری کے رہائشی اعجاز احمد کو گزشتہ ہفتے ایک بار پھر عدالت جانا پڑا۔ دو سال تک اعجاز احمد اپنی گاڑی کے لیے اتنی بار عدالت کے چکر لگا چکے ہیں کہ اب انہیں گنتی بھی بھول گئی ہے۔39سالہ اعجاز احمد پیشے سے کسان ہیں۔ گزشتہ دو سال سے ان کی کار کے دستاویزات عدالت میں ضبط ہیں کیونکہ یہ گاڑی بھارتی فوج نے ایک انکائونٹر میں استعمال کی تھی اور تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ یہ انکائونٹر جعلی تھا۔بھارتی فوج عام کشمیریوں کی گاڑیوں کو جعلی مقابلوں کیلئے استعمال کرتی ہے ۔جنوبی کشمیر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اعجاز احمد اکیلے نہیں ہیں، فوج اکثر کشمیریوں کی گاڑیاں لے جاتی ہے۔ بہت سے مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ فوج ان سے زبردستی گاڑیاں چھین لیتی ہے۔بی بی سی نے اس معاملے پر بھارتی فوج کا موقف جاننے کے لیے فوج کے تعلقات عامہ کے افسر کو ایک تفصیلی ای میل لکھی۔بی بی سی کی ای میل کا جواب دیتے ہوئے بھارتی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ انسدادعسکریت پسندی کی سرگرمیوں کے لیے فوج اہلکاروں کی نقل و حرکت کے لیے سول گاڑیاں استعمال کرتی ہے ۔ بی بی سی نے شوپیاں، پلوامہ اور کولگام کے 15دیہات کا دورہ کیا اور ان دیہات کے لوگوں نے بتایا کہ فوجی کیمپ عام لوگوں کی پرائیویٹ گاڑیاں لے جاتے ہیں، جب فوج گاڑی مانگتی ہے تو کوئی انکار نہیں کرتا، کیونکہ لوگوں میں فوج کے بارے میں شدید خوف پایا جاتا ہے ۔2020میں شوپیاں کے گائوں امشی پورہ میں بھارتی فوجیوں نے جموں کے تین کارکنوں کا جعلی مقابلے میں ‘خطرناک عسکریت پسند قراردیتے ہوئے قتل کردیاتھاجس کے بارے میں حالیہ دنوں بہت زیادہ بات کی گئی ہے ۔18جولائی 2020کو فوج نے اطلاع دی کہ 62راشٹریہ رائفلز نے ایک انکائونٹر میں تین عسکریت پسندوں کو قتل کردیا ہے ۔ اس واقعہ کے ایک ماہ کے اندر جموں کے علاقے راجوری کے تین خاندانوں نے اپنے پیاروںکی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ اہلخانہ نے بتایا کہ آخری بار انہوں نے 17جولائی کو یعنی جعلی مقابلے سے ایک دن قبل اپنے پیاروں سے ٹیلی فون پر بات کی تھی ۔اس سلسلے میں تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ فوج کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے کوئی عسکریت پسند نہیں بلکہ عام کشمیری محنت کش تھے۔ بی بی سی نے اس کیس میں چارج شیٹ پڑھی اور اس طرح معلوم ہوا کہ اس مقابلے میں اعجاز احمد کی گاڑی فوج نے استعمال کی تھی۔ جعلی مقابلے کے دو سال بعد بھی اعجاز احمد کی گاڑی کی دستاویزات عدالت میں موجود ہیں۔ تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ سومو(ٹیکسی) سٹینڈز سے گاڑیاں علاقے میں واقع فوجی کیمپ میں بھیجی جاتی ہیں۔ عام زبان میں اسے ‘کار کو ڈیوٹی پر دینا’ کہا جاتا ہے۔یہ گاڑیاں جعلی مقابلوں، انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں سرپرائز فیکٹر کے طور کے علاوہ رات کے وقت گشت کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔عدالت میں جج کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں اعجاز احمد نے کہا ہے کہ ’17جولائی 2020 کی رات آٹھ بجے انکے دروازے پر دستک ہوئی ، جب وہ باہر آئے تو فوجیوں نے کہاکہ گاڑی کی چابی دو،چابی ملنے کے بعد فوج نے کل کیمپ سے گاڑی لے جانے کیلئے کہا۔ اگلی صبح جب وہ گاڑی لینے گئے تو بتایا گیا کہ تمہاری گاڑی انکائونٹر پر گئی ہے۔ بعدازاں انہیں بتایا گیا کہ گاڑی انکائونٹر کے مقام پر کھڑی ہے یعنی امشی پورہ میں۔ وہ ایک اور کار کے ساتھ اپنی گاری کو باندھ کر اسے ورکشاپ لے گئے اوروہاں گاڑی کی ضروری مرمت کروائی ۔اعجاز احمد کے ایک قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ‘پولیس واقعے کے ساڑھے تین ماہ بعد ستمبر 2020میں اعجاز کے گھر آئی۔ شوپیان کے ایس پی نے رات 11.30 بجے فون کیااورجعلی انکانٹر میں استعمال ہونے والی گاڑی ان سے لے لی ۔یہ گاڑی چار ماہ ہیر پورہ تھانے میں بند رہی، چار ماہ بعد گاڑی واپس دی گئی تو مکمل طور پر خراب ہو چکی تھی اس کے بعد بھی اعجاز احمد کو بتایا گیا کہ گاڑی کے کاغذات بعد میں ملیں گے۔آج بھی اعجاز عدالتوں کے چکر لگا رہا ہے اور اسے اس کی گاڑی کے کاغذات نہیں دئے جارہے ہیں ۔ وہ کاغذات کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ تو گاڑی چلا سکتے ہیں نہ ہی اسے فروخت کر سکتے ہیں ۔ گزشتہ دو برس سے اعجاز کو ہر تاریخ پر عدالت جانا پڑتا ہے کیونکہ فوج نے ان کی گاڑی کو جعلی مقابلے میں استعمال کیا تھا۔ اعجاز اس دوران وکیل کو اسکی فیس بھی دے چکے ہیں مگر اب کوئی وکیل اعجاز احمد کا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button