بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں سول ملیشیا وی ڈی جی کو بحال کردیا، امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی
سرینگر28فروری(کے ایم ایس)
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی طرف سے نیا کشمیر بنانے کی کوششوں کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بڑی حد تک خاموش کرادیاگیا ہے اور انکی تمام شہری آزادیوں پر قدغن عائدہے کیونکہ بھارت کسی بھی قسم کی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا روادارنہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اے پی کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ "بھارتی قابض انتظامیہ نے فوج کی حمایت یافتہ ملیشیا ویلج ڈیفنس گارڈز کو بحال کردیا ہے اور ہزاروں دیہاتیوں کو دوبارہ مسلح اور تربیت دینا شروع کر دی ہے، جن میں بعض لڑکے بھی شامل ہیں”۔اے پی نے بھارتی فوج کے ایک سابق اہلکار ستیش کمار کا انٹرویو کیا جسے فوج میں بطور ویلج ڈیفنس گارڈ بھرتی کیا ہے۔ستیش نے اے پی کو بتایا کہ وہ دوبارہ خود کو ایک حاضر سروس فوجی کی طرح محسوس کر رہا ہے۔40سالہ ستیش کمار 2018میں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد نئی مہم کے تحت وی ڈی جی ملیشیا میں شامل ہوااورقاض حکام نے اسے سیمی آٹو میٹک رائفل اورگولیوں سے مسلح کیاہے۔ "ویلیج ڈیفنس گارڈکے نام سے مشہور سرکاری ملیشیا ابتدائی طور پر 1990کی دہائی میں ہمالیہ کے دور دراز دیہاتوں میں تشکیل دی گئی تھی ۔ ملیشیا کے ارکان ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے بدنام ہیں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان پر شدید تنقید کے بعد اسے ختم کر دیا گیاتھا۔ستیش کمار نے ملیشیا میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے کو "خوف سے لڑنے کا واحد طریقہ ” قرار دیاہے۔اے پی نے کہاکہ دیہاتیوں کو دوبارہ مسلح کرنے کی پالیسی بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور 2019میں مہینوںتک کرفیو اور مواصلاتی لاک ڈائون کے دوران مقبوضہ علاقے کا براہ راست کنٹرول سنبھالنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ اے پی نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں بہت سے نئے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں جن سے ناقدین اور بہت سے کشمیریوں کو خدشہ لاحق ہے کہ ان کے ذریعے مقبوضہ علاقے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کیاجاسکتا ہے ۔امریکی خبر رساں ایجنسی نے جنوری کے اوائل میں راجوری کے گائوں ڈھنگری میں یکے بعد دیگرے دو حملوں میں سات ہندوں کے قتل کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ جب ڈھنگری تشدد ہوا تو بھارتی حکومت نے سویلین ملیشیا کو دوبارہ مسلح کرنے کا عمل تیز کر دیا حالانکہ گزشتہ سال اگست میں اس کی تشکیل نو کا اعلان کیاگیا تھا۔حکام کے مطابق اس واقعے کے بعد انہوں نے ڈھنگری میں 100سے زیادہ دیگر ہندوئوں کو مسلح کیا اور انہیں تربیت فراہم کی ، جبکہ راجوری میں بندوق کے لائسنس پر پابندی کو بھی ہٹا دیاگیا۔ گائوں میں پہلے ہی 70سے زیادہ سابق ملیشیا اہلکار موجودتھے، جن میں سے بعض کے پاس اب بھی نوآبادیاتی برطانوی دور کی Lee-Enfieldرائفلیں موجود ہیں جو انہیں ایک دہائی قبل دی گئی تھیں۔پہلی بار، ملیشیا کو مودی حکومت کی طرف سے مالی طور پر بھی ترغیب دی گئی ہے اورہر رکن کو ماہانہ 4ہزار روپے دئیے جائیں گے۔بعض سیکورٹی اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی جموں کے غیر مستحکم اندرونی علاقوں میں تقسیم کی بنیاد بن سکتی ہے جہاں تاریخی طور پر فرقہ وارانہ تنازعات موجود ہیں۔سابق فوجی اور ملیشیا کے رکن کمار نے کہا کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کو ملیشیا میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ درست نہیںتھا کیونکہ ہمیں ابھی تک نہیں معلوم کہ ڈھنگری میں قتل عام کس نے کیا۔اے پی نے مزید کہاکہ راجوری کے دور افتادہ علاقوں میں ملیشیا کے سینکڑوں پرانے ارکان دوبارہ اپنے ہتھیاروں کو تیز کر رہے ہیں ۔