گجرات: مسلم کش فسادات میں زندہ بچ جانے والے مسلمان تاحال در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور
جے پور: 2002 کے گجرات مسلم کش فسادات میں زندہ بچ جانے مسلمانوں کی آنکھیں دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہندو انتہا پسندﺅں کے ہاتھوں مارے جانے والے اپنے پیاروں کی یاد میں اکثر نم ہو جاتی ہیں، ان کا کوئی پرساں حال نہیں اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
زبیدہ بی بی نامی ایک مسلم خاتوں 22 سال سے اپنے شوہر کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ انکا شوہر اور بڑا بیٹا قتل عام میں لاپتہ ہو گئے تھے اور زبیدہ کو انکی لاشیں بھی نہیں ملیں۔ خاتون نے وحشیانہ قتل عام میں اپنے 45 رشتہ داروں کو کھو دیا تھا۔ وہ کہتی ہیںمیں اب بھی اللہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کی واپسی کی دعا کرتی ہوں۔
اپنے شوہر اور بیٹے کو کھونے کے بعد دوسری شادی نہ کرنے والی زبیدہ بی بی کہتی ہیںانہیں جو زخم لگے ہیں وہ کبھی بھی بھر نہیں سکیں گے۔رواں برس 22جنوری کو جب ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب تھی تو گجرات کے مسلمان ہندوﺅں کے حملوں کے خدشے سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے خود کو گھر وں میں مقید کر لیا تھا۔فیروز نامی ایک خاتون کو 28فروری2002کو ہندوﺅں کے ایک ہجوم نے آبروزیری کا نشانہ بنایا تھا ۔ وہ نفسیاتی مریضہ بن چکی ہے، مردوں سے اکثر دور رہتی ہے اور اکثر وقت قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف رہتی ہے۔فیروز شیخ نے ایک بھارتی اخبار کو بتایا کہ اسے وہ دن آج بھی رہ رہ کے یاد آجاتا ہے جب سینکڑوں ہندوﺅں کا ایک ہجوم ان کے گاﺅں کی طرف بڑھ رہا تھا ، وہ تلواریں اٹھائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے ہم تمام مسلمانوں کو جلا دیں گے، کچھ مسلمانوں نے خود کو دودھ سپلائی کرنے والی ایک وین میں چھپا لیا لیکن ہندوﺅں نے انہیں ڈھونڈ لیا اور سب کو نکال کر آگ میں پھینک دیا۔فیروزہ شیخ اپنے چار سالہ بیٹے کے ساتھ وین سے کود گئی اورقریبی ندی کی طرف بھاگنے لگیں۔ آٹھ کے قریب ہندوﺅں نے تلواریں لہراتے ان کا پیچھا کیا، وہ پکڑی گئیں، انہیں بالوں سے گھسیٹ کر قریبی کھیت میں لے جایا گیا اور کم سن بیٹے کے سامنے ہی ان کے ساتھ ریپ کیا گیا ۔وہ اُس خوفناک د ن کو یاد کر کے رونے لگتی ہیں اور کہتی ہیںمجھے اب انصاف کی امید نہیں ہے، مجھے چاہیے بھی نہیں۔احمد آباد کے سٹیزن نگر میں رہنے والے نرودا پاٹیہ قتل عام کے ایک عینی شاہد معروف پٹھان یاد کرتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاملہ خواتین کو قتل کیا گیا تھا، ہندو ہجوم نے ان کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر انہیں زندہ جلا دیا تھا۔ پٹھان کا کہنا ہے کہ ریپ کی کئی وارداتیں اور قتل کے بیسیوں واقعات کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوئے، جن لوگوں نے ہمارے خاندانوں کو قتل کیا وہ آزاد گھوم رہے ہیں اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
گجرات فسادات کے 22 سال گزرنے کے بعد بھی سینکڑوں مسلمان اب بھی اپنی ہی سرزمین میں بے گھر ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جیسا کہ سینٹر فار سوشل جسٹس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گجرات میں اب بھی 16ہزار سے زئد لوگ بے گھر ہیں۔