مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سب سے بری طرح نشانہ بن رہی ہیں
اسلام آباد08مارچ(کے ایم ایس)آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے تاہم بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں ،پولیس اہلکاروںاور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کشمیر ی خواتین پرڈھائے جانیوالے مظالم اور انہیں درپیش مشکلات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اوروہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی طرف سے آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میںجنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہزاروں خواتین سمیت 96ہزار181شہریوں کو شہید کیا ۔بھارتی فوجیوںنے جنوری 2001سے اب تک کم سے کم682خواتین کو شہید کیا۔رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ بھارت کی جاری ریاستی دہشت گردی کے دوران 22ہزار 958 خواتین بیوہ ہوئی ہیںجبکہ بھارتی فوجیوں نے11ہزار 256خواتین کی آبرو ریزی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی عصمت دری اور شوپیاں کی سترہ سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابھی نیلو فراور کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کا اغواء اور بے حرمتی اور قتل کے واقعات شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میںبھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروںنے ہزاروں خواتین کے بیٹوں، شوہروں اوربھائیوںکو حراست کے دوران لاپتہ اورقتل کر دیا ہے ۔دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم کے مطابق گزشتہ34برس کے دوران 8ہزار سے زائد کشمیریوںکو دوران حراست لاپتہ کیاگیا ہے ۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان ، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے پر امن مظاہرین پر گولیوں اورپیلٹ گنوں کے وحشیانہ استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں ۔ ان زخمیوں میں سے 19ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار، 2 سالہ نصرت جان ، 17 سالہ الفت حمید ، انشا مشتاق،افرہ شکور ، شکیلہ بانو،تمنا،شبروزہ میر،شکیلہ بیگم اور رافعہ بانو سمیت سینکڑوں بچے اور بچیاں اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں ۔10جولائی 2016کو سرینگر کے علاقے قمر واری میں بھارتی پولیس نے 4 سالہ زہرہ مجید کوپیلٹ گن سے نشانہ بنایا جس سے اس کے پیٹ اور ٹانگوں پر زخم آئے ۔بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے 10ویں جماعت کے 17سالہ طالب علم الفت حمید بھی پیلٹ گن کی وجہ سے زخمی ہونے کی وجہ سے دسویں جماعت کا بورڈ امتحان نہیں دے سکا ۔ جولائی2021 میں بھارتی پولیس کے ایک کانسٹیبل اور ایس اپی او نے جموں کے علاقے ڈنسل میں ایک دلت بچی کی اجتماعی آبروریزی کی ۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری جنسی جرائم کو رکوانے کیلئے بھار ت پر دبائو بڑھانا چاہیے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حریت رہنمائوں اور کارکنوں بشمول آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، انشا طارق شاہ، صائمہ اختر، شازیہ اختر، افروزہ، عائشہ مشتاق، حنا بشیر بیگ اور آسیہ بانو سمیت دو درجن سے زائد خواتین غیر قانونی طورپر مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں نظربندہیں۔ انہیں صرف کشمیری کے ناقابل حق خودارادیت کے جائز مطالبے اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کی نمائندگی کرنے پرانتقامی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں جبری گمشدگیوں کے باعث اپنے والد ،بیٹے ،بھائیوں اور شوہروں کو کھونے کی وجہ سے کشمیری خواتین کی بڑی تعداد متعدد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ اپنے شوہروں کو بھارتی فوج کی حراست کے دوران کھونے والے خواتین نصف بیوائوںکی طرف زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے شوہروں کاکوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ۔ کئی مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کے انتظار میں دم توڑ گئیں جب کہ مقبوضہ علاقے میں کئی دہائیوں سے بیوائیں اور نصف بیوائیں تکلیف میں ہیں۔بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں سے شادیاں کرنے والی آزاد کشمیرکی 400کے قریب خواتین کو شہریت نہیںدے رہی ہے اور انہیں نہ ہی سفری دستاویزات دیئے جارہے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر واپس جاسکیں۔ ان خواتین کے بچوںکا سرکاری سکولوں میں داخلہ بھی نہیں کیاجاتا۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی صبا فیاض جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کے نوجوان سے شادی کی تھی نے بتایا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی وفات پر بھی آزاد کشمیر نہیں جاسکیں کیونکہ بھارتی حکومت انہیں سفری دستاویزات فراہم نہیں کر رہی ہے ۔کشمیری خواتین تنازعہ کشمیر سب سے بری طرح متاثر ہیں کیونکہ وہ نہ صرف بھارتی مظالم کا نشانہ بن رہی ہیں بلکہ اپنے شوہروں اور بیٹوں کے قتل عام اور آبروریزی کا نشانہ بھی بن رہی ہیں۔ کشمیر میں خواتین کو وہ بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں جو 1979میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کئے گئے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے عالمی کنونشن کے تحت دنیا بھر کی خواتین کو حاصل ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری خواتین کو بدترین سیاسی اور سماجی دبائو کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔غیر قانونی طورپر نظربند کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماء ایاز محمد اکبر کی اہلیہ رفیقہ بیگم جو کینسر کے مرض مبتلا تھی جن کا 2021میںسرینگر میں انتقال ہو گیا تھا۔ غیر قانونی طور پر نظر بند حریت رہنما راجہ معراج الدین کلوال کی اہلیہ معروفہ معراج جن کی چار بیٹیاں ہیں نے کہاہے کہ وہ اوران کی بیٹیاں طویل عرصے سے اپنے والد سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہیں ۔انہوں نے کہاکہ معراج الدین کی مسلسل نظربندی کی وجہ سے ان کی والدہ کا گزشتہ سال انتقال ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ معراج الدین کی مسلسل نظربندی کی وجہ سے ہماری زندگی جہنم میں بدل گئی ہے اور انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔معروفہ نے مزید کہا کہ ان کے شوہر صرف اپنے سیاسی موقف کی وجہ سے جیل میں قید ہیں۔بھارتی ریاست اتر پردیش کی وارانسی سینٹرل جیل میں غیر قانونی طور پر نظر بندکل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما عبدالصمد انقلابی کی والدہ اپنے بیٹے کی رہائی کے انتظار کرتے ہوئے انتقال کر گئی ہیں۔ایک اور متاثرہ خاتون رافعہ بیگم جن کے بیٹے اطہر مشتاق وانی کو بھارتی فوجیوں نے دسمبر 2020میں سرینگر میں ایک جعلی مقابلے میں شہید کر دیا تھا، انصاف اور اپنے بیٹے کی لاش کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہیں جسے فوجیوں نے دو دیگر نوجوانوں کی لاشوں کے ساتھ گاندربل میں نامعلوم مقام پر دفن کر دیا ہے ۔ایسی ہی سینکڑوں مائیں بھارتی مظالم، ناانصافی اور ذہنی دبائو کا نشانہ بن رہی ہیں جن کے بیٹوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بہت دور بارہمولہ، کپواڑہ اور گاندربل اضلاع میں بھارتی فوجیوں نے جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بعد گمنام قبروں میں دفن کر دیا ہے۔ سینکڑوں کشمیری مائیں، بیویاں اور بیٹیاں اپنے پیاروں کی واپسی کا انتظار کررہی ہیں جن میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، اور دیگر رہنما اور کارکن بشمول شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، نعیم احمد خان، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز، محمداحسن انتو اور دیگر عام کشمیری بھی شامل ہیں جو گزشتہ کئی برس مختلف جیلوں میں قید ہیں ۔
دریں اثنا کل جماعتی حریت کانفرنس کی رہنمائوں زمرودہ حبیب، یاسمین راجہ اور فریدہ بہن جی نے کہا ہے کہ آج دنیا بھر میں خواتین آج اپنا عالمی دن منا رہی ہیں لیکن کشمیر کی مظلوم خواتین کیلئے یہ دن بے معنی ہیں ۔ انہوں نے اقوام متحدہ سمیت انصاف کے عالمی اداروں اور عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں کشمیری خواتین پر ڈھائے جانیوالے مظالم اور انہیں درپیش مشکلات کا سلسلہ بند کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین جاری جدوجہد آزادی کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں اور انہوں نے عالمی برادری پرزوردیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھارت پر دبا بڑھائیں۔