کرگل ہل کونسل کے انتخابی نتائج مودی حکومت کے 5اگست کے فیصلے کے خلاف ریفرنڈم ہیں
کرگل: نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے کرگل ہل کونسل کے انتخابی نتائج کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بھارتی حکومت کے 5اگست 2019 کے غیر قانونی فیصلے کے خلاف ایک ریفرنڈم قرار دیا ہے۔
نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے جنہوں نے قبل از انتخابات اتحاد کا اعلان کیا تھا، مل کر لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے کرگل انتخابات میں 26میں سے 22نشستیں حاصل کیں، جن کے نتائج کا اعلان اتوار کو کیا گیا۔ بی جے پی اور آزاد امیدواروں نے دو دو سیٹیں جیتی ہیں۔ 5اگست 2019کو دفعہ370کی منسوخی اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے بعدعلاقے میں یہ پہلے نتخابات تھے۔این سی کی ضلعی صدر کرگل حنیفہ جان نے کہا کہ نئی دہلی نے اگست 2019میں جو کچھ کیا وہ سراسر غلط تھا، یہ کرگل کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان سے مشورہ کیے بغیر یہ فیصلہ کیا اور اس طرح یہ نتیجہ ان فیصلوں کے خلاف ایک مکمل ریفرنڈم ہے۔ حنیفہ جان نے کہاکہ ہمارا پہلا مطالبہ لداخ میں جمہوری نظام کی بحالی ہے۔ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ یہ کیسے کرے گی، کیا وہ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دیں گے؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھروہ ہماری پرانی پوزیشن بحال کرے اورہمیں مقبوضہ جموں وکشمیرکا حصہ بنائے۔انہوں نے کہاکہ کرگل کے لوگ نوکر شاہی کی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے اتحاد نے 22نشستیں حاصل کیں، دو سیٹیںآزاد امیدواروں نے جیتیں جو نظریاتی طور پر ہماری طرف مائل ہیں۔ لہذا ہم نے مجموعی طورپر24نشستیں جیتیں ۔ انہوں نے کہاکہ پورے ضلع نے اگست 2019میں کیے گئے فیصلوں اور ہم سے جمہوریت چھیننے اور ہمیں افسر شاہی کے نظام میں دھکیلنے کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔ این سی لیڈر نے کہا کہ یہ اتحاد صرف کونسل کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے کرگل کو متحد رکھنے کے لیے ہے۔ یہ اتحاد پارلیمانی انتخابات کے لیے بھی ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک سیکولر امیدوار الیکشن لڑے اور جیت جائے، کیونکہ موجودہ رکن پارلیمنٹ ایک فرقہ پرست شخص ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر عیسیٰ علی شاہ نے کہا کہ کرگل کے لوگ ہمیشہ دفعہ 370کی منسوخی کے فیصلے کے خلاف رہے ہیں اور نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرگل میں بی جے پی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ اگست 2019کے فیصلے کے خلاف ہیں اور ہم جموں و کشمیر کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔