بھارت میں مسلمانوں پر ہندوتواغنڈوں کے مظالم میں تشویشناک حد تک اضافہ
سری نگر : سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین نے مودی حکومت میں بھارت میں مسلمانوں پر مظالم میں خطرناک حد تک اضافے پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 2014مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، ہندوتوا غنڈے اقلیتوں خاص طور پر مسلمانو ں کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ 2020 کے دلی مسلم کش فسادات میں 50 سے زیادہ مسلمانوں کی جانیں گئیں ، حال ہی میں مدھیہ پردیش کے کھرگون میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کیا گیا۔
بھارت میں مسلمانوں کو دھمکیوں، ایذا رسانی اور تشدد کا سامنا ہے، خاص طور پر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو اکثر مسمار کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت ہندو بالادستی کو فروغ دے رہی ہے، جس کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) نے اس امتیازی سلوک کو مزید بڑھا دیا ہے۔
بھارت میں اسلامو فوبیا نے مہلک شکل اختیار کر لی ہے، ہندوتوا رہنما کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر تشدد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گری راج سنگھ اور کپل مشرا جیسے بی جے پی رہنماﺅں کی نفرت انگیز تقاریر سے ہندوتوا کارکنوں کو مسلمانوں پر حملوں کی شہ ملی ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ عالمی برادری کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے حملے ہندوتوا کے نظریات کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا واضح اشارہ ہیں، جو عالمی امن اور سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں۔
ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہاکہ صورتحال تشویشناک ہے اور دنیا بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔