مقبوضہ جموں و کشمیرکے ایک حصے جموں و کشمیر میں تین مرحلوں میں مکمل ہونے والے بے اختیار اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ہندوستانی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے ایک حصہ لداخ کو پہلے ہی 2019 میں اسمبلی سے محروم کر دیا گیا تھااور وہاں پر صرف ڈویلپمنٹ کونسلز ہیں۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی موجود ہے جس کا نام تو قانون ساز اسمبلی ہے لیکن اس کا اختیار بھی ڈویلپمنٹ کونسل سے زیادہ نہیں ہے۔ہندوستان کی حکومت نے 05 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھیننے، تشخص ختم کرنے، ریاستی حیثیت چھیننے ، اس کی شناخت مٹانے، کشمیر کی زمین اور وسائل پر ہندوستانیوں کو قابض کرنے کے لیے ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کی اور دفعہ35 اے ختم کر دی۔ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے نام پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہندوستان میں غیر قانونی طور پر ضم کر دیاگیا اور اس کا اطلاق 31 اکتوبر 2019 سے ہوا۔ 2019 سے 2024 تک مودی کی سربراہی میں قائم آر۔ایس۔ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے جہاں ایک طرف تو مقبوضہ جموں و کشمیر کو جیل میں بدل دیا وہاں ہی دوسری طرف آئے روز نئے قوانین نافذ کیے جاتے رہے۔ ان سب قوانین کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار کرنا، مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنا، عوام کو معاشی مسائل میں الجھانا، مختلف قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم کرنا، سیاسی نمائندگی سے محروم کرنا، کشمیریوں کے وسائل پر قبضہ کرنا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے سازگار فضا مہیا کرنا تھا۔
ڈومیسائل کے قانون میں تبدیلی لا کر ہندوستان کے لوگوں کو نہ صرف ڈومیسائل جاری کیے گئے بلکہ ان کو ووٹر لسٹوں میں بھی شامل کیا گیا۔ حدبندی کمیشن کے ذریعہ اسمبلی کی نشستوں میں ووٹرز اور آبادی کے تناسب کو نظر انداز کرکے اضافہ کیا گیا اور انتخابی حلقوں میں ردوبدل کیا گیا۔ مختلف لوگوں کے ذریعہ مختلف سیاسی جماعتیں بنائی گئی، شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائبز کا دائرہ وسیع کیا گیا اور ان کے لیے نشستیں رکھی گئی، پانچ اسمبلی نشستوں پر نامزدگی کا اختیار دہلی کے نمائندہ لیفٹینٹ گورنر کو دے دیا گیا۔ آزادی پسند حریت قیادت کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات کی کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوری کوشش تھی کہ وہ اسمبلی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت قائم کرے۔
ہندوستانی پارلیمنٹ کے الیکشن میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار وادی کشمیر کے مقامی سیاست دانوں سے شکست کھا گئے تو ہندوستانی حکومت نے جہاں مختلف سیاسی چالیں چلی و ہیں اختیارات قانون ساز اسمبلی اور وزیر اعلی کے بجائے لیفٹینٹ گورنر کو دے دئیے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی مالیاتی امور پر صرف بحث کر سکتی ہے ووٹ دے سکتی ہے لیکن منظوری کا اختیار لیفٹینٹ گورنر کے پاس ہے، اس طرح اسمبلی کی طرف سے پاس کردہ کسی قانون کو لیفٹینٹ گورنر روک سکتا ہے یا ہندوستانی صدر کواسکے جائزہ کے لیے بھیج سکتا ہے۔انتظامیہ، پولیس، آل انڈیا سروس، انٹی کرپشن اورمال کے حوالہ سے تمام تر انتظامی اختیارات گورنر کے پاس ہیں۔ حکومت کے بجٹ اور اخراجات کی منظوری کا اختیار بھی گورنر کے پاس ہے۔ وزرا کی مراعات، تنخواہ اور الاونسز کے تعین کا اختیار گورنر کے پاس ہے اور وہ اس کی خوشنودی تک وزیر رہ سکتے ہیں۔
ہندوستان کی حکومت نے انجینئر رشید کو رہا کیا تاکہ وہ وادی میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے ووٹ توڑ سکے اور بھارتیہ جنتا پارٹی آزاد امیدواروں اور کچھ اپنے طفیلی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کر سکے۔ انجینئر رشید کی الیکشن مہم کے لیے اس کو بھرپور مالی معاونت بھی کی گئی لیکن اس کی جماعت صرف ایک نشست لے سکی اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی وادی سے کوئی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ نیشنل کانفرنس نے اپنی الیکشن مہم میں ریاست کی بحالی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالفت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو پذیرائی ملی اور ووٹر ان پولنگ اسٹیشنوں تک آئے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بہت سارے انتخابی حلقوں میں امیدواران سے زیادہ ووٹران نے کوئی بھی نہیں کا آپشن استعمال کیاجس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یا تو اپنی مرضی سے پولنگ اسٹیشن نہیں آئے یا وہ ہندوستان کے آئین کے تحت منعقدہ انتخابات کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرنے آئے۔
نیشنل کانفرنس کے لیے حکومت بنانا آسان ہے لیکن اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج مقبوضہ جموں و کشمیر کی 05 اگست سے قبل کی ریاستی حیثیت بحال کروانا اورنئے ڈومیسائل قانون کو ختم کروانا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے نیشنل کانفرنس کو ان دو معاملات کے لیے ہی اکثریت دی ہے۔ ہندوستان کے گذشتہ 77 سال کے اقدامات یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام سے نہیں بلکہ اس خطہ کی زمین سے غرض ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، لوڈ شیڈنگ، وولٹیج کی کمی اور پانی کے مسائل کے حوالہ سے احتجاج کو جس طرح ہندوستان کی افواج نے طاقت کے ذریعہ کچلا۔ اس سے عیاں ہے کہ ہندوستان کشمیریوں کے بنیادی حقوق اور ضروریات کی مانگ کو طاقت کے ذریعہ دبا رہا ہے، تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ جموں کے علاقہ میں ایک احتجاج میں نہ صرف انتظامیہ بلکہ ان کے ساتھ بی۔جے۔پی کے دہشتگرد وں نے بھی پر امن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالیہ الیکشن کے نتائج اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان طاقت کے بل پر کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، انجینئر رشید، الطاف بخاری اور کئی ایسے کردار شکست کھا گئے جن کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ پیپلز ڈیمو کرٹیک پارٹی بھرپور الیکشن مہم کے باوجود عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی کیونکہ اس نے گذشتہ الیکشن کے بعد جنتا پارٹی سے مل کر حکومت بنائی تھی۔