بھارتی ”سی ڈی ایس“ کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت بھارتی فوج کی خامیوں کو ظاہر کرتی ہے
اسلام آباد 11 دسمبر (کے ایم ایس)بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف(سی ڈی ایس) بپن راوت کی بدھ کے روز ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت نے نہ صرف بھارتی فوج کے نظم و ضبط اور جنگی تیاریوں کی کمی کا پول کھول دیاہے بلکہ اس نے بھارت کی فوجی جدیدیت کو بھی زبردست دھچکا پہنچایا۔
کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ میں ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگرچہ بھارت کی چین مخالف اعلیٰ دفاعی شخصیت چلی گئی ہے لیکن سرحدی علاقوں میں چین کے تئیں جارحانہ بھارتی موقف تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ بھارتی ائر فورس کا ایک A Mi-17V5 ہیلی کاپٹربدھ کے روز تمل ناڈو کے علاقے کنور کے قریب گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں سی ڈی ایس جنرل بپن راوت سمیت اس میں سوار 14 افراد ہلاک ہوگئے۔ انڈیا ٹوڈے سمیت بھارتی میڈیا رپورٹس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حادثے کی وجہ دھند ، بجلی کی لائنوں میں الجھنا، مکینیکل خرابی یا غلط اونچائی ہو سکتی ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام ممکنہ وجوہات روسی ساختہ ہیلی کاپٹر کے بجائے انسانی عوامل کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیونکہ ایم آئی 17 سیریز کے ہیلی کاپٹر دوسرے ممالک بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔
بیجنگ میں مقیم فوجی اموری کے ماہر Wei Dongxu نے چینی روزنامہ گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ ایم آئی 17 وی 5 ایم آئی 17 کا ایک بہتر ور ژن ہے اور یہ زیادہ طاقتور انجنوں اور جدید الیکٹرانک آلات سے لیس ہے جو اسے زیادہ قابل اعتماد بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاہم بھارتی فوج بہت سے اقسام کے ہیلی کاپٹر چلاتی ہے جن میں مقامی طور پر تیار کردہ، غیر ملکی ٹیکنالوجی کے ساتھ مقامی طور پر تیار کردہ، امریکہ اور روس سے درآمد کیے جانے والے ہیلی کاپٹر شامل ہیں اور اس سے لاجسٹک سپورٹ اور دیکھ بھال میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ایک اور چینی عسکری ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ بھارت ایک ڈھیلے اور غیر منظم فوجی نظم و نسق کے لیے جانا جاتا ہے اور بھارتی فوجی اکثر معیاری آپریٹنگ طریقہ کار اور ضوابط پر عمل نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ اس حادثے نے ایک بار پھر بھارتی فوج کی جنگی تیاریوں کی کمی کو بے نقاب کر دیا۔مبصرین نے بتایا کہ بھارتی فوجی ہوائی جہازوں اور آبدوزوں کو بھی اس طرح کے بہت سے حادثات پیش آئے ہیں، جن میں 2019 میں طیارہ بردار بحری جہاز میں آگ لگنا اور 2013 میں آبدوز میں دھماکہ شامل ہے۔ آرمی چیف کے طور پر تین برس تک خدمات انجام دینے کے بعدراوت نے 31 دسمبر 2019 کو بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا عہدہ سنبھالا۔
Wei Dongxu نے کہا کہ راوت کا کردار بھارتی فوج، بحریہ اور فضائیہ میں تضادات کو دور کرنا اور فوج کو جدید بنانے کے اقدام کے طور پر ان افواج کو باہم ضم کرنا تھا تاہم ان کی موت ممکنہ طور پر بھارتی فوج کے جدید کاری کے منصوبے کو درہم برہم کر دے گی۔ماہرین نے خبردار کیا کہ بااثر راوت کے جانے کے بعدبھارتی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ غیر منظم فوج حکومتی ہاتھ سے مزید نکل سکتی ہے جس سے سرحدی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔دوسری جانب کے ایم ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی دفاعی دفاعی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین نے جنرل بپن راوت کے قتل میں اندرونی ہاتھ ملوث ہونے کا خدثہ ظاہر کیا ہے۔