پاکستان

بھارت کے ساتھ ہمار ا تصادم درحقیقت تہذیبی ہے، مقررین

اسلام آباد: بین الاقوامی و دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ درحقیقت ہمارا تہذیبی تصادم ہے جس کی جڑیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے فسطائی نظریات میں پیوستہ ہیں۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کو اپنی فوجی و معاشی صلاحیتوں کو مضبوط تر کرنے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بین الاقوامی دفاعی امور کے ماہرین نے ن خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ سمینار سے خطاب میں کرتے ہوئے کیا۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیراور سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کلیدی خطاب کیا، جبکہ دیگر مقررین میں سابق سفیر نغمانہ ہاشمی، یونیورسٹی آف واہ کے سوشل سائنسز کے سابق ڈین ڈاکٹر نذیر حسین ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خرم اقبال، بحریہ یونیورسٹی کے ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر آدم سعود ، دفاعی ماہربریگیڈیئر (ر) سید نذیر ، آئی پی ایس ایسوسی ایٹ ڈاکٹر طغرل یامین ، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس اور سابق سفیر سید ابرار حسین اور انیلا شہزاد شامل تھے۔مقررین نے کہا کہ پاکستان کو اپنی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک متحد اور واضح قومی نقطہ نظر اپنانا ہوگا، ضروری ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات استوار کرے، معاشی اور فوجی مضبوطی کو یقینی بنائے اور داخلی یکجہتی کو فروغ دے۔ ایک جامع قومی بیانیہ تشکیل دینا، نظریاتی تقسیم اور انفارمیشن کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا بھی اہم ہیں۔ ا، اس موقع پر انیلا شہزاد کی تصنیف "جیو پولیٹکس: کثیرالجہتی دنیا میں فریم ورکس اور ڈائنامکس” کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ یہ کتاب اقوام کے درمیان متوازن تعلقات کو فروغ دینے کے چیلنجز اور مواقع پر روشنی ڈالتی ہے۔ مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ متناسب تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر حقیقی توازن ممکن نہیں۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ تنازع کو تہذیبی تصادم قرار دیا، جس کی جڑیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات میں ہیں۔ نغمانہ ہاشمی نے چین کے ساتھ مضبوط اور مخلصانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ بھی کثیرالجہتی تعلقات ضروری ہیں۔ ڈاکٹر خرم اقبال نے کہا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو کثیرالجہتی حقیقت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ عالمی سطح پر نئے اتحاد بن رہے ہیں، جنہیں پاکستان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ انیلا شہزاد نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو خطے کی معاشی تبدیلی کا اہم محرک قرار دیا۔ ڈاکٹر نذیر حسین نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں مغربی نظریات کی بالادستی ہے، اس لیے علم کے نظاموں کو نوآبادیاتی اثرات سے پاک کرنا ہوگا اور مقامی نظریات کو اپنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی سیاسی اہمیت مستقل ہے، اسی لیے عالمی طاقتیں بین الاقوامی اداروں کے ذریعے اس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر آدم سعود نے غیر ریاستی عناصر، عوامی رجحانات، معلوماتی جنگ، اور معاشی پابندیوں جیسے نئے عالمی رجحانات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں نئے تجزیاتی فریم ورکس کا تقاضا کرتی ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے کہا کہ جغرافیائی سیاسیات کی گہری سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ انہوں نے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو خطے میں عدم استحکام کا سبب قرار دیا۔ ڈاکٹر طغرل یامین نے کہا کہ مغرب کا کثیرالجہتی نظام سے پیچھے ہٹنا اور جارحانہ پالیسیاں اپنانا درحقیقت کثیرالجہتی دنیا میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ سابق سفیر ابرار حسین نے کہا کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بین الاقوامی رابطے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خالد رحمٰن نے اختتامی کلمات میں کہا کہ جیو پولیٹکس کے اصول تو یکساں ہیں، لیکن متغیرات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ انہوں نے تنگ نظری سے پاک ہو کر عوامی جذبات اور اشرافیہ کی پالیسیوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button