مضامین

خاموش آنکھیں، چیختے سوال، گمشدہ شوہر، بکھری زندگیاں — کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی ادھوری کہانی

گزشتہ روز دنیا بھر میں بیوائوں کا عالمی دن منایا گیاکیونکہ 23جون دنیا بھر میں بیوائوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد ان خواتین کی حالتِ زار کو اجاگر کرنا ہے جنہوں نے اپنے شوہروں کو جنگ، ظلم، یا قدرتی آفات کے نتیجے میں کھو دیا ہو۔
کشمیر میں دہائیوں جاری بھارتی فوجی آپریشنز کے دوران ہزاروں مرد بھارتی فورسز کی جانب سے گرفتار کیے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ ان لاپتہ افراد کی بیویاں، جنہیں "نیم بیوائیں” کہا جاتا ہے، آج تک ایک غیر یقینی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کے شوہر کی لاش نہیں ملی، کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی، اور نہ ہی عدالت یا حکومت نے ان کی گمشدگی کو باقاعدہ تسلیم کیا۔ یہ خواتین ایک نہ ختم ہونے والے انتظار میں قید ہیں ،نہ وہ بیوہ کہلائی جا سکتی ہیں، نہ شادی شدہ عورت، وہ قانون، سماج اور ریاست تینوں سے بے یار و مددگار ہو چکی ہیں۔ ان پر نہ صرف معاشی بوجھ ہے بلکہ سماجی طعنوں، تنہائی اور نفسیاتی دبا نے بھی انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں جنم لینے والی یہ نیم بیوائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جیتی جاگتی مثال ہیں، اور عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ جب تک ان کی سنوائی نہیں ہوتی، کشمیر کا یہ زخم تازہ رہے گا ایک ایسا زخم جو صرف لاش سے نہیں، بلکہ غیر موجودگی کے مسلسل کرب سے لہو لہان ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی بیوائیں اور نیم بیواوں کی حالت عالمی ضمیرکو جھنجوڑ رہی ہے ۔ یہ بیوائیں صرف اپنے شوہروں کے نقصان کا غم ہی نہیں سہتیں، بلکہ انہیں سماجی، معاشی، نفسیاتی اور قانونی مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشتر خواتین کے شوہر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل یا جھڑپوں کا شکار ہوئے۔ ان خواتین کی ایک بڑی تعداد "نیم بیوائیں” کے طور پر جانی جاتی ہے، جن کے شوہر لاپتہ ہیں، لیکن ان کی موت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ یہ بیوائیں صرف اپنے شوہروں کے نقصان کا غم ہی نہیں سہتیں، بلکہ انہیں سماجی، معاشی، نفسیاتی اور قانونی مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔شوہر کی شہادت یا گمشدگی کے بعد بیوائیں اکثر کمائی کے واحد ذریعے سے محروم ہو جاتی ہیں،ان خواتین کو ملازمت کے مواقع بھی حاصل نہیں ہوتے ہیں۔
ان خواتین میں سے بیشتر خواتین کے شوہر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل یا فرضی جھڑپوں کا شکار ہوئےہیں۔
کشمیر کے پہاڑوں، جنگلوں اور دور دراز دیہاتوں میں ہزاروں ایسی گمنام قبریں دریافت ہوئی ہیں جن پر نہ کوئی نام کندہ ہے، نہ کوئی تاریخ۔ ان قبروں کی موجودگی نے کشمیر کے لاپتہ افراد کے لواحقین، خاص طور پر نیم بیواں، کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مقامی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، جیسے APDP اور Human Rights Watch، کا کہنا ہے کہ ان قبروں میں وہ افراد دفن ہو سکتے ہیں جنہیں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے، جعلی مقابلوں یا حراست میں قتل کیا اور بغیر کسی شناخت کے دفن کر دیا۔ 2008 میں جموں و کشمیر اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن (SHRC) کی ایک رپورٹ میں وادی میں 2,700 سے زائد گمنام قبروں کا انکشاف ہوا، جن میں سے کئی میں ایک سے زیادہ لاشیں دفن تھیں۔
کشمیرکے سماجی حلقوں میں بھی اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ ان گمنام قبروں میں بھارتی فوج کی طرف سے جعلی مقابلوں میں قتل کئے گئے وہ کشمیری ہیں جوآج تک لاپتہ ہیں، لیکن ان کی موت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔یہ بھی ایک حقیقت ہیے ذرائع ابلاغ کی پوٹ میںبھی ہے کہ بھارتی فوج نے کئی جعلی مقابلے کئے بعد میں مارے جانے والے عام بے گناہ کشمیری ثابت ہوئے ۔لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی کوئی نئی بات نہیں ۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ حد تک افسوسناک ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے سبب ہی کشمیر کی نیم بیوائیں معاشی بدحالی کا بھی شکار ھیں ان خواتین کی بڑی تعداد غریبی میں زندگی گزارتی ہے کیونکہ ان کے کفیل شوہر یا تو قتل کر دیے گئے یا لاپتہ ہیں۔ قابض انتظامیہ کی طرف سے کوئی مستحکم مالی امداد فراہم نہیں کی جاتی، جس سے یہ خواتین بنیادی ضروریات سے بھی محروم رہتی ہیں۔لاپتہ ھونے والے ہزاروں افراد کی نیم بیوائیں دوبارہ شادی بھی نہیں کر سکتیں،، کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں آن کے شوہر کہا ھیں زندہ ھیں ی مار دئے گئے ھیں ایسی صورتحال میں اگر وہ شادی کریں تو معاشرے میں ان کی حیثیت اور کم ہو کر جاتی ہے۔جن خواتین کے شوہر لاپتہ ہیں، وہ نہ تو قانونی طور پر بیوہ کہلا سکتی ہیں، نہ ہی انہیں کسی قسم کی سرکاری امداد یا وراثت کے حقوق ملتے ہیں۔

کشمیری بیوائیں ایک خاموش مگر گہری انسانی المیہ کا چہرہ ہیں۔ ان کی زندگیوں میں پھیلا اندھیرا صرف انسانی ہمدردی، عالمی حمایت، اور انصاف کے قیام سے ہی کم کیا جا سکتا ہے،عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ محض تماشائی نہ بنے، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ان مظلوم خواتین کی داد رسی کرے۔عالمی برادری کی ذمہ داری ھے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائیں، اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو کشمیری خواتین کی حالت زار پر سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔، بین الاقوامی تحقیقی کمیشن کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آزاد تحقیقاتی کمیشن قائم کرے، اور بھارت پر دبا ڈالنا چاہیے کہ وہ جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرے اور متاثرہ خواتین کو انصاف فراہم کرے۔عالمی این جی اوز اور فلاحی اداروں کو معاشی و نفسیاتی طور پر مفلوج ان بیواں کی مالی، طبی، اور نفسیاتی مدد کے لیے خصوصی پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔ بین الاقوامی میڈیا، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیری بیواں کی حالت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے تاکہ دنیا ان کے دکھوں سے آگاہ ہو اور مثر اقدامات کیے جا سکیں۔
اپنے پیاروں کے لاپتہ یا مارے جانے کا دکھ، عدم تحفظ، اور روزمرہ کی جدوجہد ان خواتین پر گہرے نفسیاتی اثرات ڈالتی ہے۔ کئی خواتین ڈپریشن، اضطراب اور دیگر ذہنی بیماریوں کا شکار ہو چکی ہیں۔جنگ یا شوہر کی پرتشدد موت کا صدمہ، مسلسل خوف، اور عدم تحفظ کے احساسات نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں جیسے نیم بیوائیںکشمیر کے اس المناک المیے کی علامت ہیں، جس میں انسان صرف لاش یا شہادت سے نہیں، بلکہ انتظارکی اذیت میں روز جیتا اور روز مرتا ہے۔ ان خواتین کا دکھ خاموش ہے، مگر اندر سے چیختا ہوا، جو نہ صرف ان کی ذات کو توڑتا ہے بلکہ ایک پورے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو زندگی اور موت کے بیچ معلق ہیں، جن کی آنکھیں برسوں سے دروازے کی دہلیز پر امید لیے بیٹھی ہیں کہ شاید کوئی دن ایسا آئے گا جب ان کے سوالوں کو جواب ملے گا، جب انصاف بولے گا
کیونکہ خاموش آنکھیں، چیختے سوال کشمیری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی ادھوری یہ کہانی،صبر، قربانی اورانکھوں میں خاموش احتجاج اپنے گمشدہ شوہروں کی وجہ سے بکھری زندگیاں کشمیر کا ایک چھپا ہوا غم ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے وقت تقاضا کر رہا ہے بھارت پر دبائو ڈالا جائے اور ان کے دکھ کو صرف سنا نہ جائے، بلکہ سمجھا اور سلجھایا جائے تاکہ یہ انتظارصرف کہانی نہ رہ جائے

کے ایس کشمیری kskashmiri@gmail.com

 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button