بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے اکسانے پر 76 سرکردہ وکلاءکاچیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ
نئی دہلی 27 دسمبر (کے ایم ایس)بھارتی سپریم کورٹ کے 76 سرکردہ وکلاءنے چیف جسٹس این وی رمنا کو خط لکھا ہے جس میں سپریم کورٹ سے دہلی اورریاست اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار میں حال ہی میںہندوﺅں کی دو مذہبی تقریبات میں مسلمانوں کی نسلی کشی کے لئے اکسانے کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نسل کشی کی کال دینے والے لوگوں کی فہرست بتاتے ہوئے وکلاءنے لکھا کہ پولیس کی طرف سے کارروائی نہ کئے جانے کی وجہ سے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے فوری عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے جو بظاہر روز کا معمول بن چکا ہے۔ہریدوار اور دہلی میں مذہبی تقریبات کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہاگیا ہے کہ یہ واقعات اور تقریریں محض نفرت انگیز تقاریر نہیں بلکہ پوری کمیونٹی کے قتل عام کی کھلی دعوت کے مترادف ہیں۔خط پردستخط کرنے والوں میں نامور وکلاءدشینت ڈیو، پرشانت بھوشن ، ورندا گروور، سلمان خورشید اور پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش شامل ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ تقاریر نہ صرف ہمارے ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے سنگین خطرہ ہیں بلکہ لاکھوں مسلمان شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔مسلمانوں کے خلاف نسل کشی اور ہتھیاروں کے استعمال کی کھلے عام دعوت پر سوشل میڈیا پر غم و غصے اور مذمت کے بعد ہریدوار واقعے کے چار دن بعد پولیس نے ایک مقدمہ درج کیاجس میں صرف ایک شخص کو نامزد کیا گیا تھا۔ بعد میں دو اور نام دھرم داس اور سادھوی اناپورنا کو بھی شامل کیاگیا۔ ایک ویڈیو میںسادھوی اناپورنا جسے پہلے پوجا شکن پانڈے کہا جاتا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ” اگر آپ انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مار ڈالو۔… ہمیں 100 فوجیوں کی ضرورت ہے جو ان میں سے 20 لاکھ کو مار سکتے ہیں“۔جنہوں نے اس تقریب کا انعقاد کیا اور نفرت انگیز تقاریر کیں، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ہندو رکشا سینا کے پربودھانند گری نے جو اکثر بی جے پی رہنماﺅں بشمول اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے اتراکھنڈ کے ہم منصب پشکر دھامی کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں، کہا کہ وہ اپنی باتوں پر شرمندہ نہیں ہیں۔ انہوں نے این ڈی ٹی وی کو بتایاکہ میں پولیس سے نہیں ڈرتا، میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیںکہ ”میانمار کی طرح ہماری پولیس، ہمارے سیاستدان، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانا ہوں گے اور صفائی مہم (نسلی صفائی) چلانی ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ خط میں کہاگیا کہ نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس طرح کی تقاریر کوروکنے کے لیے فوری عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے جو بظاہر روز کا معمول بن چکے ہیں۔