مقبوضہ جموں و کشمیر

کیلیفورنیا کی تقریب میں بھارتی مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور

کیلیفورنیا21مارچ (کے ایم ایس) امریکہ کے شہر کیلیفورنیا میں”بھارتی مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی اور عالمی اسلامو فوبیا”کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میںانسانی حقوق کے سرکردہ کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے ایک بار پھر بھارتی مسلمانوںکے بڑے پیمانے پر قتل عام کے خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق تقریب کی میزبانی سان ڈیاگو کولیشن فار ہیومن رائٹس نے کی جس میں انڈین امریکن مسلم کونسل سان ڈیاگو شاخ، کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز، جیوش وائس فار ہیومن رائٹس ،پلرس آف کمیونٹی سان ڈیاگو ، مسلم امریکن سوسائٹی اور مسلم لیڈرشپ کونسل آف سان ڈیاگو نے شرکت کی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے” کشمیر میں انسانی حقوق اور انصاف کے بارے میں انٹرنیشنل پیپلزٹریبونل” کی شریک بانی ڈاکٹر انگنا چٹرجی نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت 1950کے بعد سب سے زیادہ خوفناک سیاسی بحران میں ڈوبا ہوا ہے۔آجکل اس تنگ نظر جمہورت کا کام فسطائیت اور مسلمانوں کا صفایا ہے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی آدیواسیوں اور دلتوں کے ساتھ اونچی ذات کے مراعات یافتہ ہندوئوں کے پرتشدد تعلقات میں ذات پات کے جبر کی نمائندگی کرتی ہے، عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنانے کی حمایت کرتی ہے اور مسلمان خواتین کے حجاب پہننے کے حق کو روکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوںکے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال نے ایک بے لگام ہنگامی صورتحال کو جنم دیا ہے۔
زیتونا کالج میں اسلامی قانون اور دینیات کے پروفیسر ڈاکٹر حاتم بازیان نے کہاکہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو متبادل نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو فرانس میں تیار کیا گیا ہے لیکن ہندو قوم پرست اسی قسم کی دلیل پیش کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیںکہ وہ اقلیتیں جو یورپ آ رہی ہیں، یا میکسیکن جو امریکہ آ رہے ہیں، سفید فام نسل کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہندو قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ہندو مت کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار اور ایک آزاد صحافی پیٹر فریڈرک نے کہاکہ میں نے امریکی سیاستدانوں اور منتخب عہدیداروں کے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ افراد کے ساتھ روابط یا تعلقات کے بارے میںلکھا ہے۔بھارت میں اور بیرون ملک آر ایس ایس اوربی جے پی کے ایجنڈے کو بے نقاب کرنے کی میری انتھک کوششوں کی بدولت ایک سال قبل دہلی پولیس کی طرف سے ایک پریس کانفرنس میں میرا نام لیا گیا تھا اور اب مجھ پر بھارت میں داخلے پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔سانتا کلارا یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر،پروفیسر روہت چوپڑا نے تمام ملکوںکے ہندوئوں پرزوردیا کہ وہ ہندو قوم پرستی کی اس زہریلی شکل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس کے خلاف اپنی آواز بلند کریں جس سے بھارت کی شاندار تہذیب اور اقدار تباہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ ہیوسٹن یونیورسٹی کے کالج آف فارمیسی میںایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سلیم نے کہاکہ میں ایسے بھارت کی نمائندگی کیسے کر سکتی ہوں جہاں مسلمان لڑکیوں اور خواتین سے ان کے اسکولوں اور کالجوں میں قدم رکھنے سے پہلے سڑکوں کے بیچوں بیچ سر کا دوپٹہ چھینا جاتا ہے جو ان کے لباس کا حصہ ہے؟میں ایسے بھارت کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہوں جہاں آن لائن پلیٹ فارم پر ایک ایپ پر مسلمان خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے؟ میں اس بھارت کی نمائندگی نہیں کروں گی جہاں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے، ان کاقتل کیا جاتا ہے اورانہیں زندہ جلایا جاتا ہے۔ یہ وہ بھارت نہیںہے جس میں میں بڑی ہوئی تھی۔ یہ ایک ایسا بھارت ہے جس کو میں نہیں پہچانتی۔تقریب کے منتظمین نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔سان ڈیاگو کی مسلم لیڈرشپ کونسل کے پبلک ریلیشن ڈائریکٹر میلکم مورگن نے کہا کہ بھارت کی تہذیب میں بھارتی مسلمانوں کابہت زیادہ کردار ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ان پر حملے کئے جارہے ہیں۔ہمیں ایک ساتھ متحد ہونا چاہیے، چاہے ہم مسلمان ہوں یا نہیں۔ جابر بھارتی حکومت کو اسلامو فوبیا پھیلانے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے لیے جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ پلرز آف کمیونٹی سان ڈیاگوکے صدرخالد الیگزینڈر نے کہا کہ یہ تقریب ایک اہم یاد دہانی تھی کہ ہم سب کو بھارت میں مسلمانوں کی سنگین صورتحال کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button