بھارت

مودی کی زیرسرپرستی ہندوتوا قوتوں نے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جنیا دو بھر کر دیا ہے

اسلام آباد29جولائی(کے ایم ایس)
بھارت میں ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دیتے ہوئے مودی کی زیر سرپرستی آر ایس ایس اور دیگر ہندوتواقوتوں کی طرف سے کئی دہائیوں کے دوران بروئے کار لائے جانے والے ہتھکنڈوں نے مسلمانوں اور دلتوں کاجینا دوبھر کر دیا ہے۔
ممتاز تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ مسلمان اور دلت دونوں بھارت کی کل آبادی کا تقریبا 45 فیصد ہیں۔اقلیتوں کو دبانے کی ہندوتوا قوتوں کی پالیسی کے تحت بھارت میں ہندوئوں کو ترجیح دی جارہی ہے تاکہ اقلیتوں یعنی مسلمانوں، بد ھ مت اور دلت خودبخود محدو ہوجائیں۔ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس پارٹی کے مسلم رہنما شیخ عالم نے حال ہی میں بھارتی میڈیا کے حوالے سے کہا تھا کہ مسلمان بھارت کی آبادی کا30 فیصد ہیں اور ہندو 70فیصد ہیں اور اگر ہماری مسلم آبادی ایک طرف ہو جائے تو ہم چار نئے پاکستان بنا سکتے ہیں ان کی 70فیصد آبادی کہاں جائے گی؟ سابق سفیر آصف درانی نے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بھارتی آئین ملک کی سیکولر نوعیت کی بات کرتا ہے لیکن تمام عملی مقاصد کے حوالے سے یہ ایک ہندو ریاست ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی ایک بڑی آبادی مسلمان ہے، تاہم کاروبار اور بیوروکریسی میں ان کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے اور انہیں بدترین مظالم کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ لہذا اس تناظر میںہندوستان کے ایک سیکولر جمہوری ریاست کا تصور درست نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو صورتحال کا نوٹس لینے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے بھارت پر دبا ئوڈالناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 2011کی ممردم شماری کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی کل 12.5ملین آبادی میں سے 68.31فیصد مسلمان اور 28.43فیصد ہندو تھے۔سفیر نے کہا کہ کشمیری تقریبا اپنے علاقے میں محصور ہو چکے ہیں کیونکہ آر ایس ایس زیر قیادت ہندوتوا طاقتیں کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کر کے مقبوضہ ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ مقبوضہ علاقے میں رائے شماری کرانے کا اعلان کر سکیں۔جنرل ریٹائرڈطلعت مسعود نے کہا کہ موجودہ مودی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید دبانے کے لیے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مودی کی جانب سے مسئلہ کشمیر سے نمٹنے کے ہتھکنڈوں نے کشمیری عوام کے مفاد اور مستقبل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی کا نظریہ بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے کہ آیا پاکستان اور بھارت کشمیر کے حساس مسئلے پر کسی مفاہمت پر پہنچ سکتے ہیں درحقیقت ان کی پالیسیاں کشمیر کے عوام اور پاکستان کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔معروف مصنف اور تجزیہ کار ارشاد محمود نے کہا کہ بھارت میں مسلمان کو محدود کیا جارہا ہے ۔ بی جے پی کی حکومت میں انہیں پسماندہ اور بے اختیار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پوری ریاست ان کو کچلنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ کچھ بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں نسل کشی کا عمل فروغ پا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی نے ملکی سیاست اور بین الاقوامی برادری سے الگ الگ نمٹنے کے لیے دوہرا سیاسی انداز اپن رکھا ہے ۔ وہ ملک میں نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہا ہے ، مسلم مخالف بیان بازی پر اپنا سیاسی کیریئر بنا رہا ہے ۔ حقائق الفاظ سے زیادہ بولتے ہیں: لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس 301 سیٹیں ہیں لیکن ایک بھی مسلم ایم پی بی جے پی کا نہیں ہے۔مودی کی بیرونی دنیا میں ایک اعتدال پسند اور پرامن سیاستدان کے طور پر اپنا تشخص بنانے کی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ڈاکٹر اعجاز حسین نے کہا کہ سیکولر ہندوں کے ساتھ ساتھ غیر ہندو برادریوں کو سماجی اور سیاسی طور پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو ہندوتوا کے اقدار کو اپنائیں یا پھرشہریت کے خاتمے سمیت دیگر انتقامی کارروائیوں کیلئے تیار رہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر کے مودی حکومت نے اگست 2019میں بھارتی یونین کا حصہ بنا دیا ہے جو بھارت کو ہندوتوا کی بنیاد پر ایک واحد شناخت بنانے پر ہٹ دھرمی کے ساتھ یقین رکھتی ہے۔لہذا، کشمیر اور لداخ کو بھارتی ریاستوں کے ساتھ ضم کر دیا گیا تاکہ اکھنڈ بھارت (متحد ہندوستان)کے زیر التوا مذموم ایجنڈے کو مکمل کیا جا سکے۔اعجاز حسین نے کہا کہ مودی کی زیر سرپرستی سیاسی ہندوتوا کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button